قبائلی نوجوان نقیب اللہ کے قتل کے مرکزی ملزم سندھ پولیس کے افسر راؤ انوار کی ملک کی سب سے اعلیٰ عدالت میں بدھ کے روز اچانک پیشی اور گرفتاری کو نقیب کے والد نے ایک مثبت پیش رفت قرار دیا۔
نقیب اللہ حصول روزگار کے سلسلے میں کراچی میں تھے کہ رواں سال 13 جنوری کو ایک مبینہ پولیس مقابلے میں مارے گئے۔
اس معاملے کا نوٹس سپریم کورٹ نے بھی لے رکھا تھا، جس کے بعد سے راؤ انوار روپوش تھے۔
پولیس راؤ انوار کا کھوج لگانے میں مسلسل ناکام رہی تاہم بدھ کو وہ عدالت میں پیش ہو گئے جہاں سے اُنھیں گرفتار کر لیا گیا۔
نقیب کے والد محمد خان محسود بھی عدالت میں موجود تھے جب راؤ انوار کو گرفتار کیا گیا۔
اُنھوں نے کہا کہ ملک کے تمام اداروں اور میڈیا نے نقیب اللہ کے قتل کے مرکزی ملزم کی گرفتاری میں مدد کی اور اُنھیں توقع ہے کہ سپریم کورٹ سے اُنھیں انصاف ملے گا۔
نقیب کے والد یہ کہتے رہے ہیں کہ اُن کا بیٹا بے گناہ تھا اور وہ کراچی میں حصول روزگار کے لیے موجود تھا کہ اُسے مبینہ شدت پسند قرار دے کر ایک مبینہ پولیس مقابلے میں ہلاک کر دیا۔
نقیب اللہ کے قتل کے بعد قبائلیوں کے ایک گرینڈ جرگے اور پشتون تحفظ تحریک کی طرف سے ماروائے عدالت قتل اور جبری گمشدگیوں کے واقعات کے خلاف ملک کے مختلف حصوں میں احتجاج جاری ہے۔
گرینڈ جرگہ کے مرکزی رہنما سیف الرحمٰن محسود نے عدالت کے باہر صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ اُن کا احتجاج پرامن تھا اور عدالت ہی سے انصاف کے حصول کے متمنی ہیں۔
’’جتنے دھرنے ہوئے، ایک گملا تک نہیں ٹوٹا، گاڑی کا ایک شیشہ تک نہیں ٹوٹا۔ ہم نے اسی دروازے سے انصاف مانگنا تھا اور اسی دروازے سے انصاف کے طلب گار ہیں۔‘‘
سیف الرحمٰن نے کہا کہ یہ ہی اُمید ہے کہ یہاں سے انصاف لے کر جائیں گے اور ہمیں انصاف ہوتا ہوا نظر آ رہا ہے۔‘‘
نقیب اللہ کے قتل کے بعد احتجاج کرنے والے پشتونوں کا ایک بڑا مطالبہ یہ تھا کہ راؤ انوار کو گرفتار کیا جائے۔
پاکستان کی عدالت عظمٰی نے رواں ہفتے کے اوائل میں نقیب اللہ کے قتل سے متعلق مقدمے کی سماعت کے دوران کہا تھا کہ راؤ انوار کے سہولت کاروں کو بھی عدالت کے سامنے جواب دینا ہو گا۔