بلوچستان پولیس نے اس ہفتے پاکستان کے قبائلی علاقے وزیرستان سے تعلق رکھنے والے فعال کارکن منظور احمد پشتین کے خلاف ملک کی حکومت اور سیکورٹی اداروں پر تنقید کرنے کے الزام میں مقدمہ درج کر لیا ہے۔
منظور پشتین کا مطالبہ ہے کہ پشتونوں کو ملک کے دوسرے لوگوں کے مساوی حقوق دئے جائیں اور اُن کے خلاف ماروائے قتل کے اقدامات کو فوری طور پر بند کیا جائے۔
پشتونوں کی یہ احتجاجی تحریک گزشتہ جنوری میں شمالی وزیرستان کے ایک نوجوان نقیب اللہ محسود کو ایک مبینہ جعلی پولیس مقابلے میں ہلاک کئے جانے کے بعد زور پکڑ گئی۔ 27 سالہ نقیب اللہ محسود بہتر زندگی کی تلاش میں اپنے خاندان کے ہمراہ کراچی چلا آیا تھا جہاں سابق ایس ایس پی راؤ انوار نے اسے تحریک طالبان پاکستان کا ساتھی قرار دیتے ہوئے گرفتار کر لیا تھا اور بعد میں اُس کی گولیوں سے چھلنی لاش ورثاء کے حوالے کی گئی۔
یوں پشتون تحریک کے کارکنوں کا مطالبہ ہے کہ راؤ انوار کو فوری طور پر گرفتار کر کے عدالت میں پیش کیا جائے اور ماورائے عدالت قتل کے تمام اقدامات کو فوری طور پر بند کیا جائے۔ راؤ انوار عدالت کو مطلوب ہیں اور وہ گرفتاری سے بچنے کیلئے روپوش ہیں۔
پشتون تحریک کے سرکردہ لیڈر منظور احمد پشتین نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ دھرنے کے دوران وزیر اعظم اور فوج کے تعلقات عامہ کے سربراہ سے ہونے والی ملاقاتوں میں یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ اُن کی تمام شکایات کا اذالہ کر دیا جائے گا۔ اس کیلئے ایک ماہ کی دیڈ لائن دی گئی تھی۔ لیکن اس سلسلے میں ہونے والی پیش رفت محض جنوبی وزیرستان میں بارودی سرنگیں صاف کرنے کے اقدامات تک ہی محدود ہے اور حقیقی طور پر کوئی قدم نہیں اُٹھایا گیا ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ اُس کے بعد سے حکومت کے کسی اہلکار نے اُن سے رابطہ نہیں کیا ہے۔
منظور احمد پشتین کا کہنا تھا کہ فاٹا کے علاقے میں جب بھی کوئی ناخوشگوار واقعہ ہوتا ہے تو تمام لوگوں کو گھروں سے نکال کر خواتین کو الگ کر دیا جاتا ہے اور اُن کے سامنے اُن کے بچوں اور بھائیوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ 8 سے 34 دن کا کرفیو نافذ کر دیا جاتا ہے جس سے عام لوگوں کی زندگی بری طرح متاثر ہوتی ہے۔
منظور پشتین نے فاٹا علاقے میں تعینات فوجی افسروں پر الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ وہ وہاں جاری منصوبوں کے ٹھیکیداروں سے 30 سے 40 فیصد کمشن وصول کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ عام لوگوں کو کاروبار کرنے کی اجازت بھی نہیں دیتے۔ یوں غریب پشتون روزگار سے محروم رہتے ہیں۔
منظور پشتون کا کہنا تھا کہ اُن کے دادا نے پاکستان کیلئے لڑتے ہوئے بہت قربانیاں دی تھیں اور اب اسی ملک کی فوج اُن کے ساتھ زیادتی کر رہی ہے۔
محسود قبیلے کے ایک اور فعال کارکن صدیق خان محسود نے ہم سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ فاٹا میں پشتونوں کیلئے حالات خراب ہیں تاہم اس تحریک میں جس انداز میں بات کی جا رہی ہے، حالات اس قدر خراب بھی نہیں ہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ پاکستانی فوج کے اعلیٰ افسران سے اُن کی متعدد ملاقاتیں ہوئیں ہیں جن میں اُنہوں نے یقین دہانی کرائی ہے کہ یہ پاکستانی فوج کی پالیسی نہیں ہے کہ پشتونوں کو ہراساں کیا جائے یا اُن پر تشدد کیا جائے۔ اُنہوں نے کہا کہ فاٹا کے بیشتر علاقوں میں موجود چوکیوں پر موجود سپاہیوں کے خلاف لوگوں کو ہراساں کرنے کے کچھ واقعات پیش آئے تھے جس کے بعد اُن کی سرزنش کی گئی اور یوں ایسے واقعات میں بہت کمی دیکھنے میں آئی ہے۔
اُنہوں نے کہا کہ فاٹا کے علاقے میں ایک بڑا مسئلہ بیشتر علاقوں میں موجود بارودی سرنگوں سے متعلق تھا جو اکثر حادثاتی طور پر پھٹ جاتی تھیں جس کے نتیجے میں محض شک کی بنیاد پر لوگوں کی پکڑ دھکڑ شروع ہو جاتی تھی۔ تاہم جب فوج کے اعلیٰ حکام سے اس بارے میں بات کی گئی تو جنوبی وزیرستان کے دارالحکومت وانا میں تعینات ڈویژن کمانڈر نے فوری کارروائی کر کے پشاور سے بم ڈسپوزل ٹیمیں وہاں روانہ کر دی تھیں جو بارودی سرنگوں کو صاف کر رہی ہیں۔ اس کے علاوہ اُنہوں نے اپنے دفتر میں شکایات کا سیل قائم کر دیا ہے جہاں عام لوگ جا کر کوئی بھی شکایت درج کرا سکتے ہیں اور پھر اس پر فوری کارروائی کی جاتی ہے۔
تاہم صدیق خان محسود کا کہنا تھا کہ علاقے کی پولیس محض شک کی بنیاد پر نوجوانوں کو اُٹھا کر لے جاتی ہے اور اُن میں سے کچھ افراد کی لاشیں بعد میں موصول ہوتی ہیں جن کی وجہ سے پشتونوں میں بے چینی بہت بڑھ گئی ہے۔ نقیب اللہ محسود کے ماورائے عدالت قتل کا واقعہ اس کی ایک تازہ مثال ہے۔ لہذا جب تک سابق ایس ایس پی راؤ انوار کو گرفتار کر کے عدالت میں پیش نہیں کر دیا جاتا، اُس وقت تک پشتونوں کی بے چینی ختم نہیں ہو گی۔