1961ء میں امریکہ کے صدر جان ایف کینیڈی نے بیسویں صدی میں خلائی تحقیق و جستجو کی سمت متعین کی تھی۔ انھوں نے کہا تھا کہ ’’میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے ملک کو یہ مقصد حاصل کرنے کا عزم کرنا چاہیئے کہ اس عشرے کے ختم ہونے سے پہلے، ہم ایک انسان کو چاند پر اتار یں گے اور اسے بحفاظت زمین پر واپس لائیں گے۔ بنی نوع انسان کے لیے کوئی ایک خلائی منصوبہ اس سے زیادہ متاثر کن اور طویل مدت کے لیئے اس سے زیادہ اہم نہیں ہو سکتا‘‘۔
گذشتہ پچاس سال کے عرصے میں جب کبھی ناسا کا نام آتا تھا تو بیشتر لوگوں کا ذہن خلائی شٹل کی پروازوں اور چاند کی سطح پر انسانوں کی چہل قدمی کی طرف جاتا تھا۔ لیکن 2011 ء کے مجوزہ بجٹ میں شٹل کو خلا میں بھیجنے یا انسان کو چاند پر اتارنے کا کوئی ذکر نہیں ہے ۔ اس بجٹ میں Constellation پروگرام کو جس کے تحت شٹل کے بیڑے کی جگہ ایک نیا خلائی جہاز اور راکٹس تیار کیے جانے تھے یکسر ختم کر دیا گیا ہے۔
ناسا کا 2011 ء کا مجوزہ 19 ارب ڈالر کا بجٹ اس سال کے اخراجات سے ایک چوتھائی ارب ڈالر زیادہ ہے۔ اس میں اگلے پانچ برسوں کے دوران سائنس، فضائی اور خلائی سفر کی ٹکنالوجیوں پر چھہ ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی جائے گی۔ ناسا کے ایڈمنسٹریٹر چارلز بولڈن کہتے ہیں کہ اس مجوزہ بجٹ کے ذریعے ناسا کے لیے ایسی ٹکنالوجی تیار کرنا ممکن ہو جائے گا جن کے ذریعے روبوٹس اور انسان، زمین کے مدار سے باہر، خلا کی پہنائیوں میں سفر کر سکیں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’ہم ایسی ٹکنالوجیوں کی بات کر رہے ہیں جن کے بارے میں ایک عرصے سے سوچا جا رہا تھا کہ کاش یہ ہماری دسترس میں ہوتیں لیکن ہمارے پاس ان کے لیے وسائل ہی نہیں تھے ۔اس بجٹ کے ذریعے ہم مستقبل میں حیرتناک صلاحیتیں حاصل کر لیں گے‘‘ ۔
بولڈن کہتے ہیں کہ ہمارا اصل ہدف مریخ پر انسان بردار مشن بھیجنا ہے۔ لیکن فی الحال ایسا کرنے کی صلاحیت موجود نہیں ہے اور نہ ہی یہ ممکن ہے کہ کوئی تاریخ مقرر کی جا سکے جب کسی خلا پیما کو سرخ سیارے کی طرف روانہ کیا جائے گا۔
سینیٹ کی تجارت، سائنس اور ٹرانسپورٹیشن کی سینیئر رکن کے بیلے ہچیسن نے فروری میں ایک بیان جاری کیا جس میں انتباہ کیا گیا تھا کہ مجوزہ بجٹ سے خلائی تحقیق کے میدان میں امریکی برتری کا خاتمہ ہو جائے گا۔انھوں نے مزید کہا کہ ایسا کرنا امریکہ کے اہم قومی سکیورٹی اور اقتصادی مفادات سے دستبردار ہونے کے مترادف ہو گا۔سینیٹ کی اس کمیٹی کے ایک اور رکن ڈیوڈ وٹر ہیں۔ وہ ان قانون سازوں میں شامل ہیں جنھوں نے اس سال کے شروع میں ایک سماعت کے دوران مجوزہ بجٹ کی مخالفت کی تھی۔ وٹر نے کہا کہ اس بجٹ کے بارے میں اتفاقِ رائے اس بات پر ہے کہ اس میں جرأت مندانہ اندازِ فکر اور بصیرت کا فقدان ہے ۔
مائلز او برائن ایک صحافی ہیں جو گذشتہ بیس برس سے خلائی تحقیق پر لکھتے رہے ہیں اور ناسا کی ایڈوائزری کونسل کے رکن ہیں۔ وہ اس رائے سے متفق نہیں ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ لوگ ناسا کے بارے میں سوچتے وقت چاند پر جانے یا نہ جانے کی بات کرتےہیں جب کہ ناسا کا دائرہ کار اس سے کہیں زیادہ وسیع ہے ۔ ان کے مطابق ’’انسان بردار خلائی پروازوں کے نہ ہونے سے ناسا کو اپنی دوسری سرگرمیوں کے بارے میں بات کرنے کا موقع ملے گا۔ ہم نے بہت زیادہ وقت شٹل کے بارے میں بات چیت کرنے پر صرف کیا ہے ۔ اب جب کہ شٹل کی پروازیں ختم ہو چکی ہیں، ناسا کو ان چیزوں کے بارے میں بات کرنے کا موقع ملے گا جو وہ Langley Aeronautical Research Center میں کر رہی ہے۔ مثلاً ہو ا بازی کو آلودگی سے پاک کرنا، ایئر ٹریفک کنٹرول سسٹم کو 1950 ء کے زمانے کی ٹکنالوجی کے بجائے سیٹلائٹ کی مدد سے چلنے والے سسٹم سے چلانا‘‘۔
NASA کے مجوزہ بجٹ میں سورج کے مطالعے کے لیے زیادہ رقم رکھی گئی ہے اور ایسے سائنسی علوم اور سیٹلائٹ کے نظاموں پر زیادہ توجہ دی جائے گی جو کرۂ ارض کی زمین، سمندوں، فضائی تحقیق اور خلائی ٹکنالوجی کے بارے میں معلومات فراہم کرتے ہیں۔ مائلز او برائن کہتے ہیں کہ ناسا کی توجہ اب ان چیزوں پر ہو گی جنھیں حالیہ برسوں میں نظر انداز کیا گیا ہے اور اس کا مقصد خلا کے شعبے میں اپنی بالا دستی قائم رکھنا ہے۔ وہ پوچھتے ہیں کہ کیا چاند پر واپس جانے سے امریکہ کی برتری قائم ہوگی؟ وہاں توہم چالیس برس پہلے گئے تھے ۔ اصل برتری تو وہ ہوگی جب ہم ایسا راکٹ ڈیزائن کریں جو ہمیں بحفاظت مریخ پر لے جائے ۔