اسلام آباد —
پاکستان کے ایوان زیرین یعنی قومی اسمبلی میں بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کے رہنما عبد القادر ملا کو پھانسی دینے پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔
اس بارے میں پیر کو جماعت اسلامی پاکستان کے رہنما شیر اکبر نے ایک قرار دار ایوان میں پیش کی جسے کثرت رائے سے منظور کر لیا گیا۔
وفاقی حکومت کی حمایت کے بعد یہ قرار داد منظوری کے لیے ایوان میں پیش کی گئی تھی جس میں بنگلہ دیش حکومت پر زور دیا گیا ہے کہ وہ اپنے ہاں قید جماعت اسلامی کے رہنماؤں کے معاملے کو افہام و تفہیم سے حل کرے۔
قرار داد میں یہ بھی کہا گیا کہ 1971ء کی یادوں کو زندہ نہ کیا جائے۔ بنگلہ دیش 16 دسمبر 1971ء کو پاکستان سے الگ ہو گیا تھا اور ڈھاکہ حکومت اسے آزادی کے دن کے طور پر مناتی ہے جب کہ پاکستانی اسے ’سقوط ڈھاکا‘ قرار دیتے ہیں۔
گزشتہ ہفتے بنگلہ دیش میں جماعتِ اسلامی کے مرکزی رہنما عبدالقادر ملا کو 1971ء میں پاکستان سے تحریک آزادی کے دوران مبینہ جنگی جرائم میں ملوث ہونے کے جرم پر پھانسی دے دی گئی تھی۔
پاکستان کے وفاقی وزیر داخلہ نے قرار داد کی منظوری سے قبل ایوان میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ بہتر ہوتا 42 سال پرانے اس معاملے پر افہام و تفہیم کا راستہ اختیار کیا جاتا۔
چودھری نثار علی خان نے کہا کہ 16 دسمبر 1971ء کو بنگلہ دیش بننے سے پہلے تک عبدالقادر ملا متحدہ پاکستان کے داعی رہے۔
"بیالیس سال واقعات کو ہو چکے ہیں، اُس پر دونوں طرف سے زیادتیاں ہوئیں، کس نے کتنی زیاتیاں کیں اُس میں پڑا جائے تو قوم میں مزید تفریق پیدا ہوتی ہے۔‘‘
چودھری نثار نے کہا کہ پاکستان بنگلہ دیش کی آزادی کا احترام کرتا ہے۔
’’ہم بنگلہ دیش اور وہاں کی عوام کے لیے اچھا چاہتے ہیں، ہم اُس کی آزادی اور خودمختاری کا احترام کرتے ہیں مگر چاہتے ہیں کہ جو کچھ آج سے 42 سال پہلے ہوا اس حوالے سے افہام و تفہیم کو راستہ اختیار کیا جائے۔‘‘
عبدالقادر ملا کو بنگلہ دیش حکومت کی طرف سے قائم کیے جانے والے ’جنگی جرائم کے ٹربیونل‘ کی جانب سے سزا سنائی گئی تھی۔
یہ ٹربیونل ان افراد کے خلاف تحقیقات کر رہا ہے جنہوں نے مبینہ طور پر 1971ء میں بنگلہ دیش کی تحریکِ آزادی کے دوران میں پاکستان کا ساتھ دیا تھا۔
عبدالقادر ملا سزا پانے والے وہ پہلے فرد ہیں جن کی سزا پر عمل درآمد کیا گیا ہے۔
انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیمیں بنگلہ دیش میں جنگی جرائم کے ٹربیونل کی طرف سے سماعت کے طریقہ کار پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے یہ کہتی آئی ہیں کہ ان افراد کے خلاف شفاف انداز میں مقدمات چلائے جائیں جن پر 1971ء میں آزادی کی لڑائی کے دوران جنگی جرائم کے مرتکب ہونے کاالزام ہے۔
اس بارے میں پیر کو جماعت اسلامی پاکستان کے رہنما شیر اکبر نے ایک قرار دار ایوان میں پیش کی جسے کثرت رائے سے منظور کر لیا گیا۔
وفاقی حکومت کی حمایت کے بعد یہ قرار داد منظوری کے لیے ایوان میں پیش کی گئی تھی جس میں بنگلہ دیش حکومت پر زور دیا گیا ہے کہ وہ اپنے ہاں قید جماعت اسلامی کے رہنماؤں کے معاملے کو افہام و تفہیم سے حل کرے۔
قرار داد میں یہ بھی کہا گیا کہ 1971ء کی یادوں کو زندہ نہ کیا جائے۔ بنگلہ دیش 16 دسمبر 1971ء کو پاکستان سے الگ ہو گیا تھا اور ڈھاکہ حکومت اسے آزادی کے دن کے طور پر مناتی ہے جب کہ پاکستانی اسے ’سقوط ڈھاکا‘ قرار دیتے ہیں۔
گزشتہ ہفتے بنگلہ دیش میں جماعتِ اسلامی کے مرکزی رہنما عبدالقادر ملا کو 1971ء میں پاکستان سے تحریک آزادی کے دوران مبینہ جنگی جرائم میں ملوث ہونے کے جرم پر پھانسی دے دی گئی تھی۔
پاکستان کے وفاقی وزیر داخلہ نے قرار داد کی منظوری سے قبل ایوان میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ بہتر ہوتا 42 سال پرانے اس معاملے پر افہام و تفہیم کا راستہ اختیار کیا جاتا۔
چودھری نثار علی خان نے کہا کہ 16 دسمبر 1971ء کو بنگلہ دیش بننے سے پہلے تک عبدالقادر ملا متحدہ پاکستان کے داعی رہے۔
"بیالیس سال واقعات کو ہو چکے ہیں، اُس پر دونوں طرف سے زیادتیاں ہوئیں، کس نے کتنی زیاتیاں کیں اُس میں پڑا جائے تو قوم میں مزید تفریق پیدا ہوتی ہے۔‘‘
چودھری نثار نے کہا کہ پاکستان بنگلہ دیش کی آزادی کا احترام کرتا ہے۔
’’ہم بنگلہ دیش اور وہاں کی عوام کے لیے اچھا چاہتے ہیں، ہم اُس کی آزادی اور خودمختاری کا احترام کرتے ہیں مگر چاہتے ہیں کہ جو کچھ آج سے 42 سال پہلے ہوا اس حوالے سے افہام و تفہیم کو راستہ اختیار کیا جائے۔‘‘
عبدالقادر ملا کو بنگلہ دیش حکومت کی طرف سے قائم کیے جانے والے ’جنگی جرائم کے ٹربیونل‘ کی جانب سے سزا سنائی گئی تھی۔
یہ ٹربیونل ان افراد کے خلاف تحقیقات کر رہا ہے جنہوں نے مبینہ طور پر 1971ء میں بنگلہ دیش کی تحریکِ آزادی کے دوران میں پاکستان کا ساتھ دیا تھا۔
عبدالقادر ملا سزا پانے والے وہ پہلے فرد ہیں جن کی سزا پر عمل درآمد کیا گیا ہے۔
انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیمیں بنگلہ دیش میں جنگی جرائم کے ٹربیونل کی طرف سے سماعت کے طریقہ کار پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے یہ کہتی آئی ہیں کہ ان افراد کے خلاف شفاف انداز میں مقدمات چلائے جائیں جن پر 1971ء میں آزادی کی لڑائی کے دوران جنگی جرائم کے مرتکب ہونے کاالزام ہے۔