افغانستان میں طالبان حکومت کی وزارتِ صحتِ نے ملک بھر میں پیر سے چار روزہ انسدادِ پولیو مہم کے آغاز کا اعلان کیا ہے۔ مہم کے دوران پانچ سال سے کم عمر بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلائے جائیں گے۔
خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کے مطابق افغانستان کا کنٹرول سنبھالنے سے تین سال قبل ہی طالبان نے اپنے زیرِ اثر علاقوں میں اقوامِ متحدہ کے زیرِ انتظام صحت کی ٹیموں کو گھر گھر جاکر پولیو کے قطرے پلانے سے منع کر رکھا تھا۔
طالبان کو شبہ تھا کہ پولیو گروپ ان کی جاسوسی کرتے ہیں۔ چنانچہ تقریباً 33 لاکھ کمسن بچوں کو پولیو ویکسین نہیں دی جا سکی تھی۔
البتہ اب طالبان کے نگران وزیرِ صحت ڈاکٹر قلندر عباد نے کہا ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ پولیو کا مرض یا تو ہمارے بچوں کی جان لے لے گا یا انہیں مفلوج کر دے گا۔ لہٰذا اس سے بچاؤ کا صرف ایک ہی طریقہ ہے اور وہ ہے ویکسین۔
افغانستان اور اس کے پڑوسی ملک پاکستان، دنیا میں دو ایسے ممالک ہیں جہاں اب بھی پولیو وائرس موجود ہے۔ ملک میں 2010 سے انسدادِ پولیو مہم چل رہی ہے۔ ویکسین پلانے والی اکثر کارکن خواتین ہوتی ہیں کیوں کہ ان کی ماؤں اور بچوں تک رسائی آسان ہوتی ہے۔
قلندر عباد کا کہنا ہے کہ پیر سے شروع ہونے والی یہ مہم ملک کے ہر حصے میں جاری رہے گی۔
افغانستان میں اس وقت پانچ سال سے کم عمر بچوں کی تعداد لگ بھگ ایک کروڑ ہے جس میں سے 33 لاکھ بچے ایسے ہیں جنہیں 2018 سے پولیو ویکسین نہیں مل سکی۔
انسداد پولیو کی عالمی مہم کی طالبان کی جانب سے توثیق کا یہ مطلب بھی اخذ کیا جا رہا ہے کہ طالبان دنیا کو یہ دکھانا چاہتے ہیں کہ وہ عالمی اداروں کے ساتھ تعاون کرنے پر آمادہ ہیں۔ طویل عرصے تک ایک باغی عسکریت پسند فورس رہنے کے بعد اب طالبان اپنی نئی حکومت کو عالمی سطح پر تسلیم کروانا چاہتے ہیں تاکہ بین الاقوامی امداد کے بند دروازے کھل سکیں اور ملک کی گرتی ہوئی معشت سنبھل سکے۔
واضح رہے کہ گزشتہ ماہ عالمی ادارۂ صحت اور اقوامِ متحدہ کی بچوں کی ایجنسی یونیسیف نے ایک مشترکہ بیان میں طالبان کے اس فیصلے کا خیر مقدم کیا تھا کہ وہ گھر گھر جاکر پولیو کے قطرے پلانے والی ٹیموں کو دوبارہ ایسا کرنے کی اجازت دے رہے ہیں۔
افغانستان بالخصوص جنوبی حصے میںگزشتہ کئی برس سے انسداد پولیو مہم طالبان کی مخالف کی وجہ سے جاری نہیں رہی جب کہ ملک کے دوسرے حصوں میں بھی جاری لڑائی کی وجہ سے یہ معطل رہی۔ اس کے علاوہ کچھ سخت گیر مذہبی شخصیات بھی اسے مغربی سازش قرار دیتے تھے۔
اس خبر میں شامل معلومات خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' سے لی گئی ہیں۔