اٹھائیس ارکان پر مشتمل نارتھ ایٹلانٹک ٹریٹی آرگنائزیشن (نیٹو) کےاتواراور پیر کو شکاگو میں ہونے والے اجلاس میں سربراہان مملکت اور حکومت شرکت کریں گے، جس میں افغانستان پر بات ہوگی۔
نیٹو سنہ 2003سے افغانستان میں دہشت گردی اور انتہا پسندی سےبر سر پیکار ہے، جہاں اقوام متحدہ کی ہدایات پر 130000فوج تعینات ہے، جسے انٹرنیشنل سکیورٹی اسسٹینس فورس ISAFکہا جاتا ہے۔
سکیورٹی سے متعلق بین الاقوامی افواج کا مقصد افغان حکام کو سلامتی اور استحکام فراہم کرنا ہے، تاکہ ملک میں تعمیرنو اور ترقی کے حصول کے لیے سازگار ماحول پیدا کرنے میں مدد دی جا سکے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ شکاگو سربراہ اجلاس 2014ء میں افغانستان سے لڑاکا فوجوں کے انخلا سے متعلق نیٹو کے فیصلے کی تائید کےعلاوہ، افغان عوام کے ساتھ طویل المدت ساجھے داری کے عزم کا اعادہ کیا جائے گا۔
ژاں کئے ریاست اوہائیو کےشہر ڈلاوئیر میں قائم اوہائیو ویسلیان یونیورسٹی میں نیٹو سےمتعلق ایک ماہر سمجھے جاتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ اگر نیٹو ممالک کی داخلی سیاست پر نگاہ ڈالی جائے، توچاہے فرانس ہو یا امریکہ، اس لڑائی کی حمایت میں کمی آتی جارہی ہے، جس سے یہ بات صاف ظاہر ہے کہ دراصل لوگ کیا چاہتے ہیں۔
کئے کہتے ہیں کہ 2014ء میں فوج کے انخلا کی تاریخ کو سامنےرکھنا ضروری ہے، دراصل اس نظام الاقات کے بارے میں آپ کرزئی حکومت اور افغانستان کے دیگر لوگوں کو یہ پیغام دینا چاہیں گےکہ وہ غیرمعینہ مدت تک کے لیے امریکہ پر انحصارنہیں کر سکتے۔
افغانستان میں نیٹو کا نعرہ ’ایک ساتھ آئے ہیں اور ایک ہی ساتھ جائیں گے‘ رہا ہے۔ تاہم، تجزیہ کاروں کے خیال میں یہ ایک مشکل معاملہ بنتا جا رہا ہے۔
کئے کہتے ہیں کہ سربراہ اجلاس میں نیٹو حکام فرانس کے نئے منتخب صدر فرانسواں اولاں کو اس بات پر قائل کرنا پڑے گا کہ وہ اسی سال کے اواخر تک افغانستان سے اپنی 3300فرانسیسی فوجیں واپس نہ بلائیں، جیسا کہ وہ صدارتی مہم کے دوران عہد کرچکے ہیں۔