رسائی کے لنکس

افغانستان میں نیٹو ممالک کا کردار توجہ کا مرکز


صدر اوباما شکاگو کانفرنس کی میزبانی کریں گے (فائل فوٹو)
صدر اوباما شکاگو کانفرنس کی میزبانی کریں گے (فائل فوٹو)

نیٹو کے سکریٹری جنرل اینڈرس راسموسن اسمارٹ ڈیفینس پر زور دے رہے ہیں اور شکاگو میں اس تجویز پر تبادلۂ خیال کیا جائے گا۔ اس طریقے میں رکن ممالک وسائل کا مل جل کر استعمال کریں گے۔

صدراوباما اپنے شہر شکاگو میں اس اختتام ہفتہ ایک سربراہ کانفرنس میں نیٹو کے لیڈروں کا خیر مقدم کریں گے۔ اس کانفرنس میں افغانستان رکن ممالک میں ذمہ داریوں کی تقسیم اور نیٹو اتحاد کو درپیش دوسرے چیلنجوں پر توجہ مرکوز کی جائے گی۔

امریکہ اور نیٹو افغانستان سے ایک ٹائم ٹیبل کے مطابق افغانستان سے اپنی فوجیں نکال رہے ہیں جس کے تحت تمام غیر ملکی لڑاکا فوجیں 2014 تک افغانستان چھوڑ دیں گی۔

طالبان کے کئی بڑے حملوں کے باوجو، نیٹو کا کہنا ہے کہ افغانستان کی سرکاری فورسز ملک کی سیکورٹی کی بوجھ اٹھانے کی اہلیت حاصل کرنے کی طرف اطمینان بخش طریقے سے پیش رفت کر رہی ہیں۔

اس مہینے کے شروع میں صدر اوباما نے کہا تھا کہ ’’شکاگو میں ہمارا اتحاد یہ ہدف مقرر کرے گا کہ افغان فورسز اگلے سال پورے ملک میں جنگی کارروائیوں کی ذمہ دار ہوں گی۔ بین الاقوامی فوجی افغانوں کو تربیت، مشاورت اور مدد فراہم کرتی رہیں گے اور جب ضروری ہوگا، تو ان کے ساتھ لڑائی میں حصہ لیں گے۔ لیکن جیسے جیسے افغان پیش قدمی کریں گے، ہم امدادی رول اختیار کر لیں گے۔‘‘

حال ہی میں جس امریکہ افغانستان اسٹریٹیجک شراکت داری کے معاہدے پر دستخط ہوئے ہیں اس میں نیٹو کی طرف سے طویل مدت کی مدد کی اسٹریٹجی کے اعلان کا اضافہ ہوگا۔

لیکن نیٹو اتحاد کے ملکوں کے دفاعی بجٹ کم ہوتے جا رہے ہیں اور رکن ممالک کو نئے چیلنجوں کا سامنا کرنے کے لیے بعض فیصلے کرنا ہوں گے۔

امریکی محکمہ خارجہ کے اسسٹنٹ سکریٹری فار یورپین اینڈ یورایشین افیئرز فلپ گورڈن کہتے ہیں کہ ’’یورپ میں دفاع پر خرچ کا رجحان اچھا نہیں ہے اور لمبے عرصے میں اگر اخراجات کی موجودہ سطح کو برقرار نہ رکھا گیا تو نیٹو اتحاد وہ سب کچھ نہیں کر سکے گا جو وہ بہت برسوں اور عشروں کے دوران کرتا رہا ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال لیبیا کی ہے۔‘‘

نیٹو کے سکریٹری جنرل اینڈرس راسموسن اسمارٹ ڈیفینس پر زور دے رہے ہیں اور شکاگو میں اس تجویز پر تبادلۂ خیال کیا جائے گا۔ اس طریقے میں رکن ممالک وسائل کا مل جل کر استعمال کریں گے۔

واشنگٹن میں قائم بروکنگ انسٹیٹوٹ کے سٹیون پیفر کہتے ہیں کہ ’’اسمارٹ ڈفینس میں سوال یہ ہے کہ نیٹو کے ممالک کس طرح مل جُل کر پیسہ خرچ کریں تاکہ ایک ادارے کی حیثیت سے نیٹو کی صلاحیت میں اضافہ ہو جائے، بجائے اس کے کہ رکن ممالک الگ الگ فیصلے کریں۔‘‘

اس کے علاوہ سینیٹ کی خارجہ تعلقات کی کمیٹی کے چیئرمین جان کیری کہتے ہیں کہ نیٹو کے بہت سے ارکان اپنی مالی ذمہ داریاں پوری نہیں کر رہے ہیں اور اس سے سنگین مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔

’’ہم سب یہ بات اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ آج کل سب کو مالی مسائل کا سامنا ہے۔ لیکن یہ مسئلہ تو سب کے لیے ایک جیسا ہے۔ ہمیں ترجیحات کا تعین کرنا ہوگا۔ ہمیں یہ طے کرنا ہوگا کہ کون سی چیز واقعی اہم ہے اور کون سی کم اہم ہے۔‘‘

ایک اور بڑا مسئلہ میزائل کے دفاعی نظام کا اور ایران کے میزائل کے حملے کے خلاف امریکہ کے دفاعی ڈھال کا نظام قائم کرنے کا ہے۔ اس پروگرام پر روس کو اعتراض ہے۔ لیکن نیٹو نے طے کیا ہے کہ یہ نظام بہر حال قائم کیا جائے گا۔

شکاگو میں نیٹو کے لیڈر اس موضوع پر تبادلۂ خیال کریں گے کہ افغانستان اور لیبیا سے ہم نے کیا سبق سیکھے ہیں۔

سٹیون پیفر ان ماہرین میں شامل ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ ایک بنیادی چیلنج یہ ہے کہ اس بات کا تعین کیا جائے کہ مستقبل میں نیٹو کا رول کیا ہونا چاہیئے۔

گذشتہ سات یا آٹھ برس سے نیٹو کی توجہ افغانستان پر رہی ہے۔ اس وقت نیٹو کے سامنے ایک مسئلہ یہ ہے کہ اگر آپ یہ پوچھیں کہ نیٹو کا مقصد کیا ہے تو مختلف ممالک مختلف جواب دیں گے۔

شکاگو میں نیٹو کا سربراہ اجلاس گذشتہ 13 برسوں میں پہلا موقع ہو گا جب نیٹو کے لیڈر امریکہ میں جمع ہو رہے ہیں۔

XS
SM
MD
LG