نیٹو اور یورپی یونین کے راہنما وں نے یوکرین کو لگ بھگ ایک سال پرانے روسی حملے سے مقابلے کے لیے، جدید فضائی دفاع اور دوسرے سازو سامان سمیت فوجی امداد فراہم کرنے کے اپنے عزم کو تقویت دی ہے ۔
یورپی کمیشن کی صدر ارسلا وان ڈر لین نے منگل کے روز نامہ نگارو ں کو بتایا کہ وہ سمجھتی ہیں کہ یوکرین کو اپنے دفاع کے لیے درکار تمام فوجی ساز و سامان ملنا چاہئے کیوں کہ وہ اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق بنیادی حقوق اور بین الاقوامی قانون کے بنیادی اصولوں کابھی دفاع کرتے ہیں ۔
برسلز میں ایک اجلاس کے بعد وان ڈر لین اور یورپی کونسل کے صدر چارلس مائیکل کےساتھ کھڑے ہو کر گفتگو کرتے ہوئے نیٹو کے سیکرٹری جنرل جینز اسٹولٹن برگ نے امریکہ ، جرمنی اور فرانس کی جانب سے یوکرین کو نئی قسم کے اسلحے اور بکتر بند گاڑیوں کی فراہمی کے منصوبوں کے حالیہ اعلانات کا خیر مقدم کیا ۔
انہوں نے موجودہ دفاعی نظاموں کے لیے تربیت ، دیکھ بھال اور گولے بارود کی فراہمی پر توجہ مرکوز رکھنے کی ضرورت پر بھی زور دیا ۔
اسٹولٹن برگ نے کہا کہ نیٹو کے اتحادیوں اور یورپی یونین کے اراکین نے یوکرین کی مدد کے لیے اپنے ہتھیاروں کے ذخائرمیں کمی کی ہے اور یہ درست اقدام رہا ہے کیوں کہ اس کا تعلق ہماری سیکیورٹی سے بھی ہے اور بلا شبہ ہمیں یوکرین کی مدد کے لیے اپنی صلاحیتوں ،اپنے ذخائر ، اپنے اسلحے کے استعمال کی ضرورت ہے ۔
اسٹولٹن برگ نے مزید کہا کہ اگرچہ یوکرین کی فورسز روسی فوج کو نقصان پہنچانے کے قابل ہو گئی ہیں ، روس کے بارے میں غلط اندازہ نہیں لگایا جانا چاہئے اور صدر ولادی میر پوٹن نے یوکرین کے خلاف اپنی وحشیانہ جنگ کے مجموعی مقصد میں کسی تبدیلی کی کوئی علامت ظاہر نہیں کی ہے ۔
اسٹولٹن برگ نے کہا کہ ماسکو کی حکومت ایک مختلف یورپ چاہتی ہے ۔ وہ اپنے پڑوسیوں پر کنٹرول چاہتی ہے اور وہ جمہوریت اور آزادی کو ایک خطرہ سمجھتی ہے ۔
انہوں نے کہا کہ اس کے ہماری سلامتی پر دور رس اثرات مرتب ہوں گے اس لیے ہمیں نیٹو میں اٹلانٹک کے ملکوں کے درمیان اہم تعلق کے استحکام کو جاری رکھنا چاہئے ، ہمیں نیٹو اور یورپی یونین کے درمیان شراکت داری کو مسلسل مضبوط کرتے رہنا چاہئے اور ہمیں یوکرین کے لیے اپنی مدد میں مزید اضافہ کرنا چاہئے ۔
برطانیہ کے وزیر دفاع نے منگل کو کہا کہ اس وقت روسی فورسز اور کرائے کے ویگنر گروپ کے ارکان کا مشرقی یوکرین میں ایک انتہائی خونریز لڑائی کے ایک مقام پر واقع نمک کی کان کنی کے ایک چھوٹے سے قصبے سولیدار کے غالباً بیشتر حصے پر کنٹرول ہے ۔
سولیدار میں لڑائی کے نتیجے میں دونوں جانب بھاری نقصانات ہوئے ہیں ۔
یوکرین کے صدر ولادی میر زیلنسکی نے پیر کو اپنے رات کے خطاب میں سولیدار کی تباہی کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ وہاں کوئی بھی دیوار مکمل طورپر سلامت نہیں رہی ہے۔زیلنسکی نے کہا کہ سولیدار میں ہمارے جنگجووں کی مزاحمت کی وجہ سے ہم نے یوکرین کے لیے اضافی وقت اور اضافی طاقت حاصل کر لی ہے ۔
برطانوی وزارت دفاع نے اپنے تازہ ترین اندازے میں کہا ہے کہ سولیدار سے تقریباً د س کلومیٹر پر واقع بخموت ممکنہ طور پر روس کا اہم ہدف ہوسکتا ہے ۔
برطانوی وزارت دفاع نے کہا ہے کہ بخموت پر دباؤ میں اضافے کے باوجود ، روس اس قصبےکو فوری طور پر گھیرے میں نہیں لے سکتا کیوں کہ یوکرین کی فورسز کا رسدی راستوں اور دفاعی لائنوں پر مضبوط کنٹرول بر قرار ہے۔
ایک سینئیر امریکی فوجی عہدے دار نے پیر کو اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر نامہ نگاروں کوبتایا کہ بخموت میں ہونے والی لڑائی واقعی وحشیانہ ہے کیوں کہ دونوں جانب سے ہزاروں گولے داغے گئے ہیں اور اس نے مزید کہا کہ کرائے کی روسی فورسز اپنے کمزور فوجیوں کواگلی صفوں میں رکھ کر انہیں قربان کر رہی ہیں ۔
عہدے دار نے کہا کہ کمزور فوجیوں کو لازمی طور پر خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے اور بہتر تربیت کی حامل فورسز پھر زمین پر قبضے کے لیے ان کے پیچھے حرکت کرتی ہیں ۔
اس رپورٹ کے لئے کچھ مواد اے پی اور رائٹرز سے لیا گیا ہے ۔