خیبر پختونخوا کے مختلف مکاتبِ فکر کے علما نے ایک فتویٰ جاری کرتے ہوئے عسکریت پسندی اور دہشت گردی کو اسلام کے منافی قرار دیا ہے۔ فتوے میں واضح کیا گیا ہے کہ اسلام میں صرف ریاست کو جہاد کے اعلان کا حق حاصل ہے کوئی اور یہ کام نہیں کر سکتا۔
خیبر پختونخوا کے علما کا یہ فتویٰ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب صوبے کے مختلف علاقوں میں دہشت گردی اور تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔
ان واقعات اکثر وبیشتر کی ذمہ داری پاکستان میں کالعدم شدت پسند تنظیم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے قبول کی ہے۔
چند روز قبل ٹی ٹی پی کے سربراہ مفتی نور ولی محسود نے بھی پاکستان کے علما کے نام ایک پیغام میں ان کی حمایت کی استدعا کی تھی البتہ اب علما نے دہشت گردی کے خلاف فتویٰ جاری کر دیا ہے۔
دارالعلوم سرحد ، دارالعلوم حقانیہ، تنظیم المدارس، وفاق المدارس العربیہ، ربط المدارس، وفاق المدارس اسلفیہ، وفاق المدارس الشیعہ، جامع تعلیم القران، علماء کونسل نے دہشت گردی کے خلاف مشترکہ فتویٰ جاری کیا ہے۔
فتوے میں کہا گیا ہے کہ جہاد کا اعلان اسلامی ریاست کا سربراہ کر سکتا ہے۔کسی بھی شخص کو جہاد کے اعلان کا حق حاصل نہیں ہے۔قانون کی پاسداری سے گریز کرنا شرعاََ ناجائز ہے۔ کسی اسلامی ریاست کا دفاع کرنے والے پولیس اور فوج کے اہلکاروں کے خلاف ہتھیار اٹھانا حرام ہے۔
فتوے کے مطابق کسی شخص کا اعلانِ جنگ اورریاست کی اطاعت نہ کرنا پاکستان کے آئین اور قانون سے بغاوت ہے جو ایسا کرے گا وہ سزا کا مستحق ہو گا۔
فتوے پر دستخط کرنے والے جید علما
دہشت گردی اور عسکریت پسندی کے خلاف فتوے پر16 جید علما کے ہیں جن کا تعلق مختلف مکاتب فکر سے ہے۔ ان میں بعض کا تعلق مذہبی سیاسی جماعتوں سے بھی ہے۔
فتوے پر دستخط کرنے والوں میں پشاور کے مولانا طیب قریشی شامل ہیں جو تاریخی مسجد مہابت خان کے خطیب اور صوبے کے چیف خطیب بھی ہیں۔ مولانا سلمان الحق حقانی کا تعلق نوشہرہ کے دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک سے ہے۔ وہ معروف عالم انوار الحق کے فرزند اور جمعیت علما اسلام (س) کے سابق سربراہ مولانا سمیع الحق کے بھتیجے ہیں۔ مولانا سمیع الحق کی موت کے بعد جمعیت علماء اسلام (س) کی قیادت ان کے بیٹے مولانا حامد الحق کر رہے ہیں جو قومی اسمبلی کے سابق رکن بھی ہیں۔
دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک کے مفتی مختار اللہ حقانی بھی فتوے پر دستخط کرنے والوں میں شامل ہیں۔ وہ دارالعلوم حقانیہ کے دار الافتاء کے سربراہ ہیں۔
شیخ الحدیث مولانا قاری احسان الحق دارالعلوم سرحد کے مہتمم ہیں انہوں نے بھی فتوے پر دستخط کیے ہیں۔ دارالعلوم سرحد کسی زمانے میں جمعیت علماء اسلام (ف) کے مرکزی سیکرٹریٹ کی حیثیت بھی رکھتا تھا۔
وفاق المدارس العربیہ کے صوبائی سربراہ مولانا حسین احمد مدنی بھی فتوی پر دستخط کرنے والوں میں شامل ہیں۔ وہ پشاور میں جمعیت علماء اسلام (ف) کے اہم رہنما ہیں۔
مردان کی جامعہ تفہیم القرآن کے مہتمم، رابطہ المدارس اسلامیہ پاکستان کے صوبائی ناظم اور جماعتِ اسلامی کے سابق رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر عطا الرحمٰن بھی اس فتوے پر دستخط کرنے والوں میں شامل ہیں۔
فتوے پر اہلِ حدیث مکتبہ فکر کے وفا ق المدارس سلفیہ کے صوبائی ناظم مولانا عمر بن عبدالعزیز اور پشاور میں فوارہ چوک کی جامع مسجد الحدیث کے خطیب مفتی شیخ اعجاز نے بھی دستخط کیے ہیں۔
اہل تشیع مکتبہ فکر سےجامعہ عارف حسین الحسینی کے مہتمم اور وفاق المدارس الشیعہ کے صوبائی ناظم اعلیٰ علامہ عابد حسین شاکری نے بھی دستخط کیے۔
فتویٰ دینے والوں کے لیے خطرات
خیبر پختونخوا کے سابق سیکریٹری داخلہ اور ریٹائرڈ ایڈیشنل انسپکٹر جنرل پولیس سید اختر علی شاہ اور سینئر صحافی مشتاق یوسف زئی اس حوالے سے کہتے ہیں کہ اس قسم کے فتوؤں کو پروپیگنڈے کے لیے تو استعمال کیا جا سکتا ہے البتہ اس سے دہشت گردی یا عسکریت پسندی کا خاتمہ ممکن نہیں۔ ان کے بقول جو لوگ دہشت گرد تنظیموں سے منسلک ہیں وہ پہلے ہی اپنا ذہن بنا چکے ہوتے ہیں ۔
سابق سیکریٹری داخلہ سید اختر علی شاہ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ اسلام کے ابتدائی دور سے زیادہ تر علما متفق ہیں کہ جہاد کے اعلان کا حق خلیفۂ وقت یا ریاست کو حاصل ہے۔ ان کے بقول سوویت یونین کے خلاف پاکستان امریکہ کا اتحادی تھا اور افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف جنگ کو کئی تنظیموں نے جہاد سے منسلک کرکے اس بارے میں اسلامی فلسفے سے انحراف کیا ۔
سابق سیکریٹری داخلہ کا دعویٰ تھا کہ اس فتوے سے عام لوگوں میں طالبان سے نفرت پیدا ہونے کے قوی امکانات ہیں البتہ جو لوگ پہلے سے طالبان کی صفوں میں شامل ہیں ان کی واپسی ناممکن ہے۔
سینئر صحافی مشتاق یوسف زئی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ فتوؤں کے صادر ہونے کا موسم ہے چند روز قبل کالعدم شدت پسند تنظیم نے بھی علما کے نام ایک پیغام دیا تھا، جس کے جواب اب علما کرام نے یہ فتوی صادر کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اب پاکستان میں ٹی ٹی پی کے خلاف جنگ جاری ہے اور زیادہ تر علما تحریکِ طالبان پاکستان کی مخالفت کر رہے ہیں البتہ اس قسم کے فتوؤں سے وہ اپنے طرزِ عمل کو نہیں بدل سکتے۔
ان کا کہنا تھا کہ ٹی ٹی پی سے وابستہ عسکریت پسند پہلے ہی سے ذہن بنا چکے ہیں اور اسی پر عمل کر رہے ہیں البتہ اس فتوے پر دستخط کرنے والوں کی زندگی کو اب خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔