ویب ڈیسک ۔ نیٹو ملکوں کے وزرائے خارجہ نے جمعرات کو اوسلو میں اہم ملاقاتیں کیں ، جن کا مقصدسویڈن اور یوکرین کی جانب سے نیٹو میں شمولیت کی خواہش پر تبادلہ خیال کرنا تھا ۔نیٹو ملکوں کے رہنماوں کا اگلا اجلاس 11 اور 12 جولائی کو لیتھوانیا میں ہونا طے ہے۔ نیٹو کے سیکرٹری جنرل یینز سٹولٹن برگ اس سے پہلے سویڈن کو نیٹو میں شامل کرنے کے لئے کوشاں ہیں ۔نیٹو میں شمولیت کے لیے رکن ممالک کی متفقہ رضا مندی درکار ہے اور اب نیٹو نے رکن ملک ترکیہ پر دباؤ بڑھایا ہے کہ وہ سویڈن کی رکنیت پر اپنے اعتراضات کو ختم کر دے ۔
سویڈن کو توقع ہے کہ وہ نیٹو کا بتیسواں رکن ملک بن جائے گا۔ لیکن نیٹو کے اکتیس رکن ملکوں میں سے ایک ملک ترکیہ سویڈن کی رکنیت کی مخالفت کر رہا ہے کیونکہ اس کا خیال ہے کہ سویڈن دہشت گرد تنظیموں کے خلاف نرمی برتتا رہا ہے ۔
یوکرین اکتیس ارکان پر مشتمل نیٹو اتحاد کا رکن نہیں ہے، لیکن نیٹو یوکرین کی غیر رکن حیثیت میں اضافہ کرنے اور روس کی جنگ کے تناظر میں سلامتی کے وعدوں کے لیے ایک لائحہ عمل تیار کرنے پر بھی غور کر رہا ہے ۔نیٹو کے سیکرٹری جنرل یینز سٹولٹن برگ کہتے ہیں کہ نیٹو اتحادیوں کو اس ملاقات کے دوران یوکرین کے لیے طویل مدتی فنڈنگ اور سیکیورٹی پلان پر پیشرفت کی امید ہے ۔
نیٹو یا نارتھ اٹلانٹک الائنس کی بنیاد دوسری جنگ عظیم کے بعد رکھی گئی تھی۔ اس کا مقصد یورپ میں امن کا تحفظ ، اراکین کے درمیان تعاون کو فروغ دینا اور ان کی آزادی کی حفاظت کرنا تھا ۔بنیادی طور پر اسے سابق سوویت یونین کی طرف سے لاحق خطرے کا مقابلہ کرنے کے تناظر میں قائم کیا گیا تھا ۔نیٹو کی بنیاد 1949 میں 12 رکن ممالک نے رکھی ۔ نو بار نئے اراکین کا اضافہ کیا اور اب یہ تعداد اکتیس ہے ۔
نیٹو کے رکن ملک ترکی کی جانب سے سویڈن کی شمولیت کی حامی نہیں بھری گئی۔ ہنگری نے بھی سویڈن کی رکنیت کی منظوری میں تاخیر کی ہے لیکن اس کی وجوہات عوامی سطح پر سامنے نہیں لائی گئیں ۔اس تناظر میں نیٹو کے سیکریٹری جنرل اسٹولٹن برگ نے کہا کہ وہ مستقبل قریب میں انقرہ جائیں گے تاکہ سویڈن کی شمولیت کے مسئلے پر تبادلہ خیال کیا جا سکے ۔ نیٹو کے ایک سفارت کار نے بتایا کہ سٹولٹن برگ اور صدر رجب طیب اردوان اس ہفتے کے آخر میں ترک رہنما کی حلف برداری کے موقع پر ملاقات کر سکتے ہیں۔ سفارت کار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات کی کیونکہ بات چیت کی حتمی تفصیلات طے نہیں ہوئیں۔
حال ہی میں امریکی صدر جو بائیڈن نے ترک صدر کو ان کی انتخابی کامیابی پر مبارکباد دیتے ہوئے باہمی امور پر تبادلہ خیال کیا ۔ اور دونوں لیڈروں نے سویڈن کی نیٹو میں شمولیت اور ترکی کی جانب سے امریکی ساختہ F-16 لڑاکا طیاروں کے بیڑے کی فراہمی اور توسیع کی درخواست پر تبادلہ خیال کیا۔ امریکی وزیر خارجہ بلنکن کہتے ہیں کہ سویڈن کی رکنیت اورترکی کے لئے لڑاکا طیاروں کی فراہمی کے معاملات الگ الگ ہیں تاہم انہوں نے زور دیا کہ دونوں کی تکمیل سے یورپی سلامتی کو بہت تقویت ملے گی۔بلنکن نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ ’’ ہمارے یہ دونوں فیصلے یورپی سلامتی کے لیے بہت اہم ہیں۔‘‘
اتحادی اس بات پر بھی متفق ہیں کہ یوکرین ایک دن نیٹو کا رکن بن جائے گا لیکن اس سے پہلے ا سے سکیورٹی کو یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ معقول مالی امداد فراہم کرانے کی ضرورت ہے۔ نیٹو کے سیکرٹری جنرل نے کہا کہ آج کی ملاقات میں ہماری توجہ اس بات پر رہی کہ یوکرین کو نیٹو کے قریب کیسے لا سکتے ہیں ۔ نیٹو کے بیشتر اتحادی اس بات پر متفق ہیں کہ یوکرین اس وقت تک نیٹو میں شامل نہیں ہوگا جب تک اسے روس سے جنگ کا سامنا ہے اور کوئی نہیں جانتا کہ جنگ کب ختم ہوگی لیکن ہمیں اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ ہمارے پاس مستقبل میں یوکرین کے تحفظ اور روس کی جارحیت کا مقابلہ کرنے کی بھرپور صلاحیت ہو۔ اس موقع پر امریکی وزیر خارجہ انٹنی بلنکن نے کہا کہ اتحادیوں کی توجہ ’’یوکرین کی درمیانی اور طویل مدتی سیکورٹی صلاحیت کو بڑھانے میں معاونت پر مرکوز رہی تاکہ یوکرین اس وقت اور مستقبل میں کسی بھی نوعیت کی جارحیت کو روکنے کے اہل ہو سکے‘‘
(اس خبر کی تفصیلات ایسوسی ایٹڈ پریس سے لی گئی ہیں)