نیٹو ممالک نے افغانستان میں بین الاقوامی افواج کی قابل ذکر تعداد میں موجودگی برقرار رکھنے پر اتفاق کیا ہے۔
گزشتہ ہفتے ہی صدر براک اوباما کی طرف سے جنگ سے تباہ حال اس ملک میں تعینات امریکی فوجیوں کی تعداد کو پہلے اعلان کردہ تعداد میں کم نہ کرنے کے اعلان کیا تھا اور پولینڈ میں جمعہ اور ہفتہ کو ہونے والی کانفرنس کے دوران وہ نیٹو رہنماؤں سے بھی طالبان کے خلاف لڑائی میں اپنی حمایت کو بڑھانے پر زور دیتے رہے۔
ہفتہ کو وارسا میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے نیٹو کے سیکرٹری جنرل جین اسٹولٹنبرگ کا کہنا تھا کہ ابھی یہ کہنا تو قبل از وقت ہو گا کہ اتحادی ممالک افغانستان میں معاون فوجی مشن کے لیے فوجیوں کی کتنی تعداد میں موجودگی پر متفق ہوں گے لیکن ان کے بقول وہ باور کرتے ہیں کہ 12 ہزار فوجیوں کی تعداد برقرار رہے گی اور اس ضمن میں آئندہ موسم خزاں میں فیصلہ کر لیا جائے گا۔
2014ء کے اواخر میں 13 سالہ لڑاکا مشن مکمل ہونے پر ایک لاکھ سے زائد بین الاقوامی فوجی اپنے وطن واپس چلے گئے تھے جس کے بعد سے ایک سکیورٹی معاہدے کے تحت لگ بھگ 12 ہزار غیر ملکی فوجی مقامی سکیورٹی فورسز کی تربیت اور انسداد دہشت گردی میں معاونت کے لیے تعینات ہیں۔ ان میں امریکیوں کی تعداد 9800 ہے۔
امریکی صدر نے اعلان کیا تھا کہ آئندہ سال 8400 امریکی فوجی افغانستان میں موجود رہیں گے جب کہ گزشتہ سال انھوں نے اس تعداد کو ساڑھے پانچ ہزار تک رکھنے کا کہا تھا۔
صدر اوباما کی طرف سے فوجیوں کی اس تعداد کو تعینات رکھنے کے فیصلے کا افغان قیادت کے علاوہ مبصر حلقوں کی طرف سے بھی خیر مقدم کیا گیا تھا۔
پاکستان کے ایک سینیئر تجزیہ کار اور بین الاقوامی امور کے ماہر ڈاکٹر رسول بخش رئیس نے نیٹو سیکرٹری جنرل کے تازہ بیان کو افغانستان میں عسکریت پسندوں سے برسرپیکار مقامی سکیورٹی فورسز کے لیے ایک خوش آئند پیش رفت قرار دیا۔
پاکستان کا بھی یہ موقف رہا ہے کہ وہ افغانستان سے بین الاقوامی افواج کے ذمہ دارانہ انخلا کی حمایت کرتا ہے۔
طالبان کی طرف سے حالیہ مہینوں میں مہلک حملوں میں تیزی اور افغان سکیورٹی فورسز کو درپیش مزاحمت کے تناظر میں کہا جاتا رہا ہے کہ مقامی فورسز کی استعداد کار بڑھانے کے لیے بین الاقوامی کے انخلا پر نظرثانی کی جائے۔
مزید برآں نیٹو کے سیکرٹری جنرل نے یہ بھی بتایا کہ اتحادیوں نے افغان سکیورٹی فورسز کی 2020ء تک اعانت جاری رکھنے کا عزم بھی کیا اور اس ضمن میں درکار پانچ ارب ڈالر سالانہ کے ہدف کے وہ بہت قریب ہیں۔
امریکہ اس سلسلے میں ساڑھے تین ارب ڈالر سالانہ دینے کا وعدہ کر چکا ہے۔