پاکستان کے سابق وزیرِ اعظم نواز شریف نے پاک پتن دربار اراضی کیس میں سپریم کورٹ سے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) نہ بنانے کی استدعا کی ہے۔
چیف جسٹس پاکستان جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے منگل کو پاک پتن دربار اراضی ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی۔ سماعت کے دوران میاں نواز شریف عدالت میں پیش ہوئے جنہیں گزشتہ سماعت پر عدالت نے پیش ہونے کا حکم دیا تھا۔
دورانِ سماعت نواز شریف کی جے آئی ٹی نہ بنانے کی استدعا پر چیف جسٹس نے کہا کہ میاں صاحب گھبرا گئے۔ تحقیقاتی ٹیم اچھی نہیں لگتی۔ سات دن میں بتائیں کہ کس سے انکوائری کرائیں؟
نواز شریف کا کہنا تھا کہ میرا جے آئی ٹی کا تجربہ اچھا نہیں ہے۔
سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس نے نواز شریف سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ پہلے آپ کو کیس کا بیک گرائونڈ بتا دوں؟ اوقاف پراپرٹی کے دعوے داروں نے عدالت میں کیس کیا۔ ہائی کورٹ نے بھی کہہ دیا کہ زمین محکمۂ اوقاف کی ہے۔ آپ نے ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف زمین نجی ملکیت میں دے دی۔ اگر آپ نے اوقاف کی زمین نجی ملکیت میں نہیں دی تو آپ بری الذمہ ہیں۔
نواز شریف نے کہا کہ ریکارڈ پر ایسا کوئی نوٹی فکیشن نہیں۔ نوٹی فکیشن کا نمبر غلط ہونے کا معاملہ سامنے آیا تھا۔ میرا خیال ہے نچلی سطح پر کوئی گڑبڑ ہوئی ہے۔ شاید سیکریٹری اوقاف نے اختیارات کے تحت 1971ء کے نوٹی فکیشن کو ڈی نوٹیفائی کیا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ بڑی قیمتی زمین تھی۔ سوال نوٹی فکیشن کے نمبر کا نہیں۔ سیکریٹری اوقاف کے پاس ایسے کوئی اختیارات نہیں۔ کیا محکمۂ اوقاف کے ساتھ فراڈ ہوا ہے؟ ایک ایسی چیز آگئی ہے جس کی تحقیق کی ضرورت ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ دو بار کے وزیرِ اعلیٰ اور تین بار کے وزیرِ اعظم کلیئر ہوں۔ پولیس، نیب، ایف آئی اے، اینٹی کرپشن یا جے آئی ٹی میں سے کس سے تحقیقات کرائیں؟
نواز شریف نے کہا کہ آپ جو کہہ رہے ہیں میں اس سے اتفاق کرتا ہوں۔ تحقیقات میں کوئی حرج نہیں۔ لیکن میرا جے آئی ٹی کا تجربہ اچھا نہیں۔ کسی اور سے انکوائری کرالیں۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ انصاف کرنا صرف عدالتوں کا کام نہیں۔ آپ جیسے لیڈر بھی انصاف کرسکتے ہیں۔ آپ خود منصف بن جائیں۔ نواز شریف ایک ہفتے میں بتادیں کس ادارے سے تحقیق کرائیں؟
سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے بیرسٹر ظفراللہ کی بھی سرزنش کی۔ چیف جسٹس نے کہا ظفراللہ صاحب آپ پریکٹسنگ وکیل نہیں ہیں، آپ تو سیاسی آدمی ہیں۔
بعد ازاں عدالت نے پاک پتن اراضی کیس کی سماعت ایک ہفتے تک ملتوی کردی جب کہ نواز شریف کو آئندہ حاضری سے استشنیٰ دے دیا۔
سپریم کورٹ آف پاکستان نے 2015ء میں پاک پتن دربار کی اراضی پر دکانوں کی تعمیر کا از خود نوٹس لیا تھا۔ نواز شریف پر 1985ء میں بطور وزیرِ اعلیٰ اوقاف کی زمین واپسی کا نوٹی فکیشن واپس لینے کا الزام ہے۔
گزشتہ سماعت پر عدالتِ عظمیٰ نے نواز شریف کا جواب مسترد کرتے ہوئے ریمارکس دیے تھے کہ وہ خود ذاتی حیثیت میں عدالت آکر وضاحت کریں۔
منگل کو عدالت میں پیشی کے موقع پر صحافیوں نے نوازشریف سے بات کرنے کی کوشش کی لیکن سابق وزیرِ اعظم نے صحافیوں کے کسی سوال کا جواب نہیں دیا اور عدالت سے روانہ ہوگئے۔
اس موقع پر ان کی جماعت کے کچھ کارکنان بھی سپریم کورٹ کے باہر جمع ہوئے جنہوں نے نواز شریف کے حق میں نعرے بازی بھی کی۔