پاکستان کے وزیرِ داخلہ شیخ رشید احمد نے اعلان کیا ہے کہ سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کے پاسپورٹ کی تجدید نہیں کی جائے گی جس کے بعد سابق وزیرِاعظم کی سفری دستاویزات کی میعاد منگل کی رات ختم ہو جائے گی۔
منگل کو اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے شیخ رشید نے کہا کہ نواز شریف کو وطن واپس آنے سے نہیں روکا جا رہا اور سابق وزیرِ اعظم جب وطن واپس آنا چاہیں گے تو انہیں عارضی سفری دستاویز جاری کر دی جائیں گی۔
سابق وزیرِ اعظم نواز شریف علاج کی غرض سے لندن میں قیام پذیر ہیں اور پاکستان کی حکومت نے انہیں وطن واپس لانے کے لیے برطانوی حکومت کو خط بھی ارسال کر رکھا ہے۔
شیخ رشید نے کہا کہ اگست 2018 سے نواز شریف کا نام وفاقی کابینہ کی سفری پابندی کی فہرست میں شامل ہے لہذٰا ان کے پاسپورٹ کی تجدید نہیں کی جا سکتی۔
انہوں نے کہا کہ عدالت نے نواز شریف کو بیرون ملک جانے کی مشروط اجازت دی جس کی انہوں نے پابندی نہیں کی اور اب ہائی کورٹ انہیں وطن واپس آنے کے احکامات جاری کر چکی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ نواز شریف وطن واپس نہیں آئیں گے اور اس ضمن میں ان کے بیانات اخبارات کی حد تک ہیں۔
یاد رہے کہ شناختی کارڈ اور پاسپورٹ میں تجدید کا عمل وزارتِ داخلہ کے ماتحت ادارے کرتے ہیں۔
امیگریشن قوانین کے ماہرین کا کہنا ہے کہ پاسپورٹ کی منسوخی کے باوجود بھی سابق وزیرِ اعظم کو وطن واپس لانا آسان نہیں ہو گا۔
بین الاقوامی قوانین کے ماہرین بیرسٹر امجد کہتے ہیں کہ حکومت ایک طرف کہہ رہی ہے کہ نواز شریف کو وطن واپس لانا ہے جب کہ پاسپورٹ منسوخ کرنے کے بعد انہیں واپس لانے کے تمام راستے مسدود ہو جاتے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ پاکستان کا حکومتِ برطانیہ کو خط لکھنا کہ نواز شریف کو واپس بھیجا جائے اور پھر پاسپورٹ کی منسوخی، دونوں عوامل ایک دوسرے کی نفی کرتے ہیں۔
بیرسٹر امجد کہتے ہیں کہ برطانیہ اور پاکستان کے درمیان تحویلِ مجرمان کا قانونی معاہدہ نہ ہونے کی وجہ سے اسلام آباد کے پاس مطلوبہ قانونی ذرائع موجود نہیں ہیں کہ نواز شریف کو واپس لایا جا سکے۔
وزیرِ داخلہ شیخ رشید احمد کا مزید کہنا تھا کہ مریم نواز نے کہا ہے کہ ان کی بیرون ملک سرجری ہونی ہے لیکن وہ حکومت کو ای سی ایل سے نام نکالنے کے لیے درخواست نہیں دیں گی تو اچھی بات ہے ہم نے ان سے درخواست مانگی بھی نہیں ہے۔
کیا حکومت نواز شریف کو وطن واپس لا پائے گی؟
حکومت کی جانب سے نواز شریف کا پاسپورٹ منسوخ کرنے پر یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ اس عمل سے کیا حکومت سابق وزیرِ اعظم کو وطن واپس لانے میں کامیاب ہو پائے گی؟
پاکستانی حکام نے مختلف عدالتوں کی جانب سے نواز شریف کو اشتہاری قرار دیے جانے کے بعد سابق وزیرِ اعظم کو وطن واپس لانے کے لیے انٹر پول سے رابطہ کیا تھا تاہم انٹر پول کی طرف سے کوئی مثبت ردِعمل نہیں دیا گیا۔
وزیرِ اعظم عمران خان بھی کہہ چکے ہیں کہ برطانیہ کے دورے کے دوران وہ اپنے برطانوی ہم منصب سے ملاقات کر کے نواز شریف کو وطن واپس لانے کی بات کریں گے تاہم ابھی تک برطانوی وزیرِ اعظم کی طرف سے عمران خان کو دورۂ برطانیہ کی دعوت نہیں ملی۔
پاکستانی حکومت کی جانب سے برطانوی حکومت کو لکھے گئے خطوط پر بھی کوئی مثبت جواب موصول نہیں ہوا۔
یاد رہے کہ پاکستان اور برطانیہ کے درمیان مجرموں کے تبادلے کا کوئی معاہدہ موجود نہیں ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان مذاکرات کے نتیجے میں ایک مجوزہ مسودہ تیار کیا گیا تھا تاہم اس پر عملدرآمد پر اتفاق نہیں ہو پایا۔
'نواز شریف جب چاہیں گے وطن واپس آئیں گے'
مسلم لیگ (ن) کی ترجمان مریم اورنگزیب کا کہنا ہے کہ حکومت کا منسوخ کردہ پاسپورٹ نواز شریف کو نہیں چاہیے وہ جب چاہیں گے وطن واپس آ جائیں گے۔
اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ نواز شریف کے پاسپورٹ کو منسوخ کرنے پر وزرا کی جانب سے پریس کانفرنسز کی گئیں۔
مریم اورنگزیب نے کہا کہ حکومت پاسپورٹ کی تجدید اپنے پاس رکھے قوم حکومت کی سیاسی انتقامی کارروائیوں کو دیکھ رہی ہے۔
مسلم لیگی رہنما کا کہنا تھا کہ جب تک ڈاکٹرز نواز شریف کو وطن واپس جانے کا مشورہ نہیں دیتے وہ پاکستان نہیں آئیں گے۔
مسلم لیگ (ن) کی مجلس عاملہ نے نواز شریف کو کہہ رکھا ہے کہ وہ اپنا علاج مکمل ہونے تک وطن واپس نہ آئیں۔
خیال رہے کہ نواز شریف کو لاہور ہائی کورٹ نے اکتوبر 2019 میں طبی بنیادوں پر علاج کی غرض سے ملک سے باہر جانے کی اجازت دی تھی۔ علاوہ ازیں اسلام ہائی کورٹ نے بھی العزیزیہ ریفرنس میں سابق وزیر اعظم کی سزا چھ ہفتوں کے لیے معطل کر دی تھی۔
حکومت نے نواز شریف کو بیرونِ ملک علاج کے لیے جانے کی غرض سے انڈیمنٹی بانڈ کی شرط رکھی تھی جسے لاہور ہائی کورٹ نے ختم کر دیا تھا۔
عدالت نے بیان حلفی کی بنیاد پر نواز شریف کو چار ہفتوں کے لیے بیرونِ ملک جانے کی اجازت دے دی تھی۔ جس کے بعد نواز شریف 19 نومبر 2019 کو لندن روانہ ہو گئے تھے۔