پاکستان میں حزبِ اختلاف کی جماعتیں ایک طرف اسمبلیوں سے اجتماعی طور پر مستعفی ہونے پر غور کر رہی ہیں۔ تو دوسری طرف وزیرِ اعظم عمران خان نے خبردار کیا ہے کہ اگر اپوزیشن اراکین نے استعفے دیے تو فوری منظور کر لیے جائیں گے۔
حزبِ اختلاف کے اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) نے آئندہ برس فروری میں اسلام آباد کی جانب مارچ کا اعلان کر رکھا ہے۔ تاہم پی ڈی ایم میں شامل جماعتیں تاحال اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کے وقت اور سینیٹ انتخابات میں حصہ لینے یا نہ لینے کا فیصلہ نہیں کر سکی ہیں۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ پی ڈی ایم کی مستقبل کی حکمتِ عملی کا وضع نہ ہونا، حکومت کے سخت مؤقف کو تقویت دے رہا ہے۔
پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں نے اپنے اراکین اسمبلی کو رواں سال 31 دسمبر تک استعفی پارٹی قیادت کو جمع کرانے کی ہدایت کی ہے۔
تاہم مبصرین کا کہنا ہے کہ اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کے وقت کے بارے میں حزبِ اختلاف کی جماعتوں میں یکسوئی نہیں پائی جاتی۔
حزبِ اختلاف کی اہم اور سندھ میں حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) فوری طور پر اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کے حق میں نہیں ہے۔
ذرائع کے مطابق پیپلز پارٹی چاہتی ہے کہ سینیٹ انتخابات میں حصہ لیا جانا چاہیے اور اس مقصد کے لیے سابق صدر آصف علی زرداری نے نواز شریف اور مولانا فضل الرحمٰن کو قائل کرنے کی کوشش کی ہے۔
پیپلز پارٹی کے اس مؤقف کے بعد مریم نواز اور شاہد خاقان عباسی نے مولانا فضل الرحمٰن سے الگ الگ ملاقاتیں کی ہیں۔ تاہم ذرائع بتاتے ہیں کہ پی ڈی ایم اس معاملے پر تاحال کسی حتمی فیصلے پر نہیں پہنچ سکی ہے۔
پیپلز پارٹی کے پاس سندھ میں صوبائی حکومت ہے جس پر وہ بلا شرکت غیرے حکومت کر رہی ہے۔
پیپلز پارٹی کا مؤقف ہے کہ استعفی آخری حربہ ہونا چاہیے۔
تجزیہ کار سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ لاہور جلسے کے بعد استعفوں کے معاملے پر حزبِ اختلاف میں ابہام ہے اور ایسے لگتا ہے کہ پی ڈی ایم جماعتوں کا ارادہ واضح نہیں ہے۔ بلکہ اس بات پر دو رائے پائی جاتی ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ پی ڈی ایم کا نقطۂ اتحاد عمران خان کی حکومت کا خاتمہ ہے جسں کے لیے وہ ہر قدم سوچ سمجھ کر اٹھائیں گے اور کوئی ایسا اقدام نہیں لیں گے کہ ان کے استعفے رائیگاں چلے جائیں۔
سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ حزبِ اختلاف ایسی صورتِ حال میں اجتماعی استعفے دے گی کہ حکومت کا خاتمہ یقینی ہو سکے۔ نہ کہ خود سسٹم سے باہر ہو جائیں۔
یاد رہے کہ 2014 میں موجودہ حکمران جماعت پاکستان تحریکِ انصاف نے اسمبلی سے استعفے دیتے ہوئے اسلام آباد میں 126 دن تک دھرنا دیا تھا۔ تاہم وہ حکومت گرانے میں ناکام رہے تھے۔
سینئر صحافی سلیم بخاری کہتے ہیں کہ وزیرِ اعظم یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ وہ پی ڈی ایم کی تحریک کے نتیجے میں دباؤ میں نہیں ہیں۔ اسی لیے انہوں نے بیان دیا کہ اگر استعفے آ بھی جائیں تو انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں سلیم بخاری نے کہا کہ عمران خان صرف بیان ہی نہیں بلکہ حزبِ اختلاف کو مستعفی ہونے کا چیلینج بھی دے رہے ہیں۔ ان کے بقول اگر آدھی اسمبلی مستعفی ہو جائے تو الیکشن کمیشن کے پاس نئے انتخابات کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رہتا اور ماضی کی جمہوری روایات بھی یہی ہیں۔
سلیم بخاری کہتے ہیں کہ اس صورتِ حال میں پی ڈی ایم تاحال اس بات میں کامیاب رہی ہے کہ حزبِ اختلاف کی قیادت کے درمیان کسی قسم کا اختلاف سامنے نہ آئے۔ البتہ اس بات پر تحفظات موجود ہیں کہ استعفوں کا استعمال کب کرنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ آصف زرداری نے مولانا فضل الرحمٰن اور نواز شریف کو فون کر کے اپنے مؤقف پر قائل کرنے کی کوشش کی ہے کہ حزبِ اختلاف کو سینیٹ انتخابات سے باہر نہیں رہنا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ پی ڈی ایم کی دیگر بڑی جماعتیں مسلم لیگ (ن) اور جمعیت علماء اسلام (ف) چاہتی ہے کہ سینیٹ انتخابات سے قبل استعفے دیے جائیں تاکہ الیکٹورل کالج ٹوٹ جائے۔
سلیم بخاری کہتے ہیں کہ اگر استعفوں کے معاملے پر پی ڈی ایم میں اختلافات جنم لیتے ہیں۔ تو پھر عمران خان کو بقیہ مدت حکومت میں کوئی خطرہ نہیں رہے گا۔ کیوں کہ حزبِ اختلاف کو دوبارہ تحریک کے لیے خاصہ وقت درکار ہوگا۔
بعض حلقوں کی جانب سے یہ دعوے بھی سامنے آ رہے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے بعض اراکین مستعفی ہونے کے حق میں نہیں ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ابھی تک دونوں بڑی جماعتوں کے تمام اراکین نے استعفے جمع نہیں کرائے۔
دوسری جانب مسلم لیگ کی نائب صدر مریم نواز نے بے نظیر بھٹو کی برسی میں شرکت کے لیے لاڑکانہ روانہ ہوتے ہوئے کہا کہ غیر محسوس کردار اب پیچھے ہٹ رہے ہیں۔
اس سے قبل مولانا فضل الرحمٰن نے مردان جلسے میں کہا تھا کہ حکومت کو لانے والے کہہ رہے ہیں کہ ہم پر تنقید نہ کریں۔
اس صورتِ حال میں سوال اٹھائے جا رہے ہیں کہ کیا اسٹیبلشمنٹ اور حکومت کے درمیان فاصلے پیدا ہو رہے ہیں۔
تجزیہ کار سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ اس بات کے کوئی ثبوت نہیں ملے کہ مقتدر قوتیں اور حکومت کے درمیان فاصلے پیدا ہوئے ہیں اور بظاہر ایک پیج پر دکھائی دیتے ہیں۔
البتہ ان کے بقول اسٹیبلشمنٹ یہ ضرور چاہتی ہے کہ انہیں سیاسی معاملات میں ملوث نہ کیا جائے۔
وہ سمجھتے ہیں کہ اپوزیشن نئے انتخابات کی راہ ہموار کرنا چاہتی ہے۔ جس کے لیے وہ استعفوں کے استعمال، لانگ مارچ کے بعد پیدا شدہ سیاسی کشیدہ صورتِ حال میں کریں گے۔
سلیم بخاری کہتے ہیں کہ مولانا فضل الرحمٰن کے اس بیان کی فوج کی جانب سے تردید نہیں آئی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے انہیں کہا ہے کہ ان پر تنقید کے بجائے حکومت پر تنقید کی جائے۔
انہوں نے کہا کہ پی ڈی ایم حکومت سے بات چیت کو تیار نہیں ہے۔ کیوں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ اصل فیصلہ سازی اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھ میں ہے۔ لہذا ان ہی سے معاملات کو طے کیا جائے گا۔
رواں ماہ 27 دسمبر کو بے نظیر بھٹو کی برسی کے سالانہ اجتماع میں شرکت کے لیے حزبِ اختلاف کی تمام قیادت گڑھی خدا بخش، لاڑکانہ مدعو ہے۔ تاہم مولانا فضل الرحمن کا لاڑکانہ جلسے میں شریک نہ ہونا بھی سوالات کو جنم دے رہا ہے۔
جے یو آئی کے مطابق مولانا فضل الرحمٰن ذاتی وجوہات کی بنا پر شریک نہیں ہوں گے اور ان کی نمائندگی مولانا عبدالغفور حیدری کریں گے۔