اسلام آباد سے لاہور کی جانب اپنے قافلے کے ساتھ سفر کے تیسرے روز سابق وزیر اعظم نواز شریف نے گوجرانوالہ میں ایک اجتماع سے سوال کیا کہ پاکستان کے مالک بیس کروڑ عوام ہیں یا نہیں ہیں؟ یہاں کے عوام اس ملک کے مالک ہیں یا نہیں ۔۔ مجھے بتایا جائے کہ مجھے کس بات پر نکالا گیا۔
انہوں نے کہا کہ ملک میں ترقی کا عمل شروع ہو گیا تھا۔ کارخانے چلنے لگے تھے ، بے روزگاری کم ہو رہی تھی۔ ملک بھر میں پاور پلانٹ لگ رہے تھے۔ موٹر ویز اور ہائی ویز بن رہے تھے۔سستی بجلی آنے والی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ دنیا یہ تسلیم کر رہی تھی کہ پاکستان میں امن قائم ہو رہا ہے ۔ ملک ترقی کر رہا ہے ۔ لیکن کچھ لوگوں کو یہ برداشت نہیں ہوا۔ دھرنے شروع ہو گئے۔ وہ یہ سوچ رہے تھے کہ اگر یہ سب کچھ ہوگیا تو نواز شریف 2018 میں بھی آجائے گا۔
ان کا قافلہ جب گوجرانوالہ پہنچا تو وہاں لوگوں کا بڑا ہجوم تھا۔ انہوں نے اپنی تقریر میں گوجرانولہ کے عوام کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ گوجرانوالہ کے باسیو! نواز شریف آج آپکا مرید و ممنون ہے، جس طرح فقیدالمثال استقبال کیا گیا ہے، زندگی بھرنہیں بھولوں گا، میں بھی آپ لوگوں سے پیار کرتا ہوں،گوجرانوالہ والو! آئی لو یو ٹو۔
سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف نے اپنے سفر کے راستے میں استقبال کے لیے آنے والے ننھے بچے حامد کے ان کے قافلے کی گاڑی کے نیچے آکر جاں بحق ہونے پر صدمے اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میں اس بچے کے گھر جلد جاؤں گا۔
جمعے کو اُن کی ریلی لگ بھگ ساڑھے گیارہ بجے جہلم سے روانہ ہوئی۔ ریلی میں موجود مسلم لیگ (ن) کے راہنماؤں کے مطابق راستے میں پڑنے والے مختلف شہروں سے ہوتی ہوئی پہلے گجرات اور پھر گوجرانوالہ پہنچے گی۔
گجرات پہنچنے پر اپنے حامیوں کے ایک بڑے اجتماع سے خطاب میں نواز شریف نے کہا کہ اُن کی نا اہلی کے فیصلے کو عوام نے قبول نہیں کیا۔ اُن کا کہنا تھا کہ تیسری مرتبہ اُنھیں اس طرح نکالا گیا ہے۔
اُنھوں نے اپنے حامیوں سے کہا کہ ’’میرے پیغام کا انتظار کرنا‘‘۔ تاہم، اُنھوں نے مزید وضاحت نہیں کی کہ اُن کا آئندہ کا لائحہٴ عمل کیا ہوگا۔
نواز شریف نے جلسے سے خطاب میں اپنے حامیوں سے سوال کے انداز میں کہا آیا اُنھیں گھر بیٹھ جانا چاہیئے؟ جب جواب ’’نہیں‘‘ میں آیا تو سابق وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ ’’ہم سب اس نظام کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوں گے۔‘‘
سابق وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ کروڑوں عوام نے اُنھیں ووٹ دے کر وزیر اعظم منتخب کیا اور ’’پانچ لوگوں نے نواز شریف کو رسوا کر کے اُس دفتر سے باہر نکال دیا۔‘‘
ریلی کے دوران گاڑی کی ٹکر سے بچہ ہلاک
جہلم سے گجرات تک کے سفر کے دوران، نواز شریف کی ریلی میں شامل ایک گاڑی کی ٹکر سے 12 سالہ بچہ ہلاک ہوگیا۔ نواز شریف کی بیٹی مریم نواز نے سماجی رابطے کی ویب سائیٹ، ٹوئیٹر پر ایک پیغام میں اس واقعہ پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے مقامی پارٹی کی قیادت کو متاثرہ خاندان سے فوری رابطے کی ہدایت کی۔
عدالت عظمٰی سے 28 جولائی کو نا اہلی کے بعد نواز شریف نے 8 اگست کو اسلام آباد سے براستہ جی ٹی روڈ اپنے آبائی شہر لاہور جانے کا فیصلہ کیا تھا۔
نواز شریف اگرچہ جمعرات کی شام غروبِ آفتاب سے قبل ہی جہلم پہنچ گئے تھے لیکن اُنھوں نے ایک اجتماع سے خطاب کے بعد مزید سفر نہ کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے رات جہلم ہی میں گزاری۔
مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ جی ٹی روڈ پر آنے والے ہر شہر سے مزید لوگ ان کے قافلے میں شامل ہو رہے ہیں۔
نواز شریف نے ریلی کے آغاز کے بعد سے اب تک جن مقامات پر خطاب کیا، اُس میں انھوں نے اپنی نا اہلی کے فیصلے پر کڑی تنقید کرتے ہوئے یہ کہا کہ کروڑوں عوام وزیراعظم کا انتخاب کرتے ہیں اور ’’پانچ معزز جج آپ کے وزیراعظم کو چلتا کر دیتے ہیں۔‘‘
سابق وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ اس طرح نا اہلی اُن کے بقول عوام کے ’مینڈیٹ کی توہین‘‘ ہے۔
نواز شریف کے ان بیانات پر حزبِ مخالف کی جماعتیں خاص طور پر تحریک انصاف کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ عدلیہ مخالف بیانات اس اہم ریاستی ادارے پر دباؤ ڈالنے کے مترادف ہیں۔
لیکن مسلم لیگ (ن) کے عہدیدار اس الزام کی نفی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ فیصلے پر رائے کا اظہار کسی ادارے سے ٹکراؤ نہیں۔
جی ٹی روڈ جسے ’’گرینڈ ٹرنک روڈ‘‘ بھی کہا جاتا ہے ملک کی مصروف ترین شاہراہ ہے اور جہلم سے لاہور تک کے راستے میں آنے والے اضلاع کی بیشتر قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستیں مسلم لیگ (ن) نے جیتی ہوئی ہیں۔
اس بنا پر مسلم لیگ (ن) کی قیادت کو اُمید ہے کہ ریلی کے اس مرحلے میں پہلے دو روز کی نسبت زیادہ لوگ شامل ہو سکیں گے۔
اس شاہراہ پر بعض مقامات پر گنجان آبادی والے علاقے بھی ہیں جہاں نواز شریف کی ریلی کا سفر سست ہو سکتا ہے۔
اب تک کی اطلاعات کے مطابق نواز شریف کی اگلی منزل گوجرانوالہ ہو گی، جہاں وہ رات کو قیام کر سکتے ہیں اور پھر یہ ریلی ہفتے کو اپنی منزل لاہور کی جانب بڑھے گی۔
اس ریلی کی سکیورٹی کے لیے سخت حفاظتی انتظامات کیے گئے ہیں اور سیکڑوں پولیس اہلکار نواز شریف کی حفاظت پر مامور ہیں۔
جب سابق وزیر اعظم نے جی ٹی روڈ کے ذریعے لاہور جانے کا فیصلہ کیا تھا تو اُس وقت اُنھیں یہ بتایا گیا تھا کہ اس شاہراہ کے ہر حصے کو مکمل طور پر محفوظ بنانا ممکن نہیں اور سکیورٹی خدشات ہو سکتے ہیں۔
لیکن مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں کے بقول نواز شریف نے اس کے باوجود اس راستے کے ذریعے لاہور جانے کا فیصلہ کیا ہے۔
اُدھر اطلاعات کے مطابق گوجرانوالہ اور لاہور میں مسلم لیگ (ن) کے رہنما اس ریلی کے اختتامی مرحلے کے دوران عوامی طاقت کے بھرپور مظاہرے کے لیے کوشاں ہیں اور کارکنوں کو مزید متحرک کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔
اب تک کی ریلی کے بارے میں حزبِ مخالف کی جماعتوں کی تنقید رہی ہے کہ نوازشریف کے ہمراہ اُتنی تعداد میں لوگ نہیں نکلے جتنی کہ حکمران جماعت توقع کر رہی تھی۔