وزیر اعظم نواز شریف نے دورہٴ امریکہ کی دعوت قبول کر لی ہے، جس کے لیے 23 اکتوبر کی تاریخ مقرّر کی گئی ہے۔
اُنھیں یہ دعوت چند ماہ قبل وزیر خارجہ کیری کے دورہٴ پاکستان کے دوران دی گئی تھی۔
ذرائع کے مطابق، پاکستانی وزیر اعظم نے یہ دعوت جمعرات کو امریکی وزیر خارجہ جان کیری سے دو طرفہ ملاقات کے دوران قبول کی۔
اِس ملاقات میں امریکی وزیر خارجہ نے ایک دفعہ پھر پاکستان کے قبائلی علاقوں میں دہشت گردوں کی پناہ گاہوں پر تشویش کا اظہار کیا، جبکہ دونوں رہنماؤں نے اتفاق کیا کہ افغانستان، پاکستان یا بھارت کے درمیان سرحد پار سے ہونے والے تشدد کے واقعات، اِن تمام ملکوں کی سلامتی کے لیے خطرہ ہے اور اِس کی فوری روک تھام ضروری ہے۔
پاکستانی وزیر اعظم نے واضح کیا کہ پاکستان اپنے تمام ہمسایہ ممالک اور امریکہ کے ساتھ تعلقات میں بہتری کا خواہاں ہے۔
امریکی وزیر خارجہ نے پاکستان میں آنے والے زلزلے پر اظہارِ افسوس کرتے ہوئے، امریکہ کی طرف سے امداد کی بھی پیش کش کی۔
دونوں رہنماؤں نےافغانستان میں مفاہمت کے عمل پر بات چیت کی۔ پاکستانی وزیر اعظم نے وزیر خارجہ کیری کو افغانستان کے صدر حامد کرزئی کے حالیہ دورہِ پاکستان کی تفصیلات بتائیں اور یہ بھی بتایا کہ صدر کرزئی نے پاکستان سے طالبان کے اہم رہنما ملّا برادر کو رہا کرنے کی درخواست کی تھی جسے منظور کرتے ہوئے پاکستان نے چند روز قبل ملا برادر کو رہا کر دیا ہے۔
ملا برادر کو 2010 میں کراچی میں آئی ایس آئی نے سی آئی اے کی مدد سے گرفتار کیا تھا۔ گرفتاری کے وقت وہ ملا عمر کے بعد طالبان کے اہم ترین رہنماؤں میں شمار ہوتے تھے۔ مبصرین کے مطابق ملا برادر افغان مفاہمتی عمل اور طالبان کے ساتھ بات چیت میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔
اس ملاقات کے دوران پاک امریکہ سٹریٹیجک ڈائیلاگ پر بھی بات چیت ہوئی اور فیصلہ کیا گیا کہ اس ڈائیلاگ کے تحت موجود پانچ ورکنگ گروپس کی اس سال کم از کم ایک میٹنگ کی جائے گی۔ اس سلسلے کی سب سے پہلی میٹنگ اکتوبر میں معیشت سے متعلق گروپ کی متوقع ہے جس کی سربراہی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کریں گے۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی کارروائی کے باہر ہونے والی اس میٹنگ میں پاکستان کی طرف سے وزیر اعظم کے علاوہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار، قومی سلامتی اور امورِ خارجہ کے مشیرسرتاج عزیز، اور وزیرِ پانی و بجلی خواجہ آصف بھی موجود تھے، جبکہ امریکی وفد میں وزیر خارجہ کے علاوہ افغانستان اور پاکستان کے لیے امریکہ کے خصوصی مندوب جیمز ڈابنز اور افغانستان اور پاکستان پر امریکی صدر کے خصوصی معاون، جیفری ایگرز شریک تھے۔
ادھر واشنگٹن میں، امریکی صدر کے پریس سکریٹری کی طرف سے جمعرات کو جاری ہونے والے ایک اخباری بیان میں کہا گیا ہے کہ صدر براک اوباما 23اکتوبر کو وائٹ ہاؤس میں وزیر اعظم نواز شریف کا خیر مقدم کریں گے۔
بیان کے مطابق، یہ دورہ دیرپہ امریکہ پاکستان تعلقات کی اہمیت کا غماز ہے جس سے توانائی، تجارت اور معاشی ترقی، علاقائی استحکام اور انسداد دہشت گردی کے امور پر باہمی دلچسپی کے ضمن میں تعاون کو مضبوط کرنے کا موقع فراہم ہوگا۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ مستحکم، محفوظ اور خوشحال پاکستان کے مشترکہ مفاد کو فروغ دینے کے سلسلے میں، امریکی صدر وزیر اعظم نواز شریف سے بات چیت کے منتظر ہیں۔
اُنھیں یہ دعوت چند ماہ قبل وزیر خارجہ کیری کے دورہٴ پاکستان کے دوران دی گئی تھی۔
ذرائع کے مطابق، پاکستانی وزیر اعظم نے یہ دعوت جمعرات کو امریکی وزیر خارجہ جان کیری سے دو طرفہ ملاقات کے دوران قبول کی۔
اِس ملاقات میں امریکی وزیر خارجہ نے ایک دفعہ پھر پاکستان کے قبائلی علاقوں میں دہشت گردوں کی پناہ گاہوں پر تشویش کا اظہار کیا، جبکہ دونوں رہنماؤں نے اتفاق کیا کہ افغانستان، پاکستان یا بھارت کے درمیان سرحد پار سے ہونے والے تشدد کے واقعات، اِن تمام ملکوں کی سلامتی کے لیے خطرہ ہے اور اِس کی فوری روک تھام ضروری ہے۔
پاکستانی وزیر اعظم نے واضح کیا کہ پاکستان اپنے تمام ہمسایہ ممالک اور امریکہ کے ساتھ تعلقات میں بہتری کا خواہاں ہے۔
امریکی وزیر خارجہ نے پاکستان میں آنے والے زلزلے پر اظہارِ افسوس کرتے ہوئے، امریکہ کی طرف سے امداد کی بھی پیش کش کی۔
دونوں رہنماؤں نےافغانستان میں مفاہمت کے عمل پر بات چیت کی۔ پاکستانی وزیر اعظم نے وزیر خارجہ کیری کو افغانستان کے صدر حامد کرزئی کے حالیہ دورہِ پاکستان کی تفصیلات بتائیں اور یہ بھی بتایا کہ صدر کرزئی نے پاکستان سے طالبان کے اہم رہنما ملّا برادر کو رہا کرنے کی درخواست کی تھی جسے منظور کرتے ہوئے پاکستان نے چند روز قبل ملا برادر کو رہا کر دیا ہے۔
ملا برادر کو 2010 میں کراچی میں آئی ایس آئی نے سی آئی اے کی مدد سے گرفتار کیا تھا۔ گرفتاری کے وقت وہ ملا عمر کے بعد طالبان کے اہم ترین رہنماؤں میں شمار ہوتے تھے۔ مبصرین کے مطابق ملا برادر افغان مفاہمتی عمل اور طالبان کے ساتھ بات چیت میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔
اس ملاقات کے دوران پاک امریکہ سٹریٹیجک ڈائیلاگ پر بھی بات چیت ہوئی اور فیصلہ کیا گیا کہ اس ڈائیلاگ کے تحت موجود پانچ ورکنگ گروپس کی اس سال کم از کم ایک میٹنگ کی جائے گی۔ اس سلسلے کی سب سے پہلی میٹنگ اکتوبر میں معیشت سے متعلق گروپ کی متوقع ہے جس کی سربراہی وزیر خزانہ اسحاق ڈار کریں گے۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی کارروائی کے باہر ہونے والی اس میٹنگ میں پاکستان کی طرف سے وزیر اعظم کے علاوہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار، قومی سلامتی اور امورِ خارجہ کے مشیرسرتاج عزیز، اور وزیرِ پانی و بجلی خواجہ آصف بھی موجود تھے، جبکہ امریکی وفد میں وزیر خارجہ کے علاوہ افغانستان اور پاکستان کے لیے امریکہ کے خصوصی مندوب جیمز ڈابنز اور افغانستان اور پاکستان پر امریکی صدر کے خصوصی معاون، جیفری ایگرز شریک تھے۔
ادھر واشنگٹن میں، امریکی صدر کے پریس سکریٹری کی طرف سے جمعرات کو جاری ہونے والے ایک اخباری بیان میں کہا گیا ہے کہ صدر براک اوباما 23اکتوبر کو وائٹ ہاؤس میں وزیر اعظم نواز شریف کا خیر مقدم کریں گے۔
بیان کے مطابق، یہ دورہ دیرپہ امریکہ پاکستان تعلقات کی اہمیت کا غماز ہے جس سے توانائی، تجارت اور معاشی ترقی، علاقائی استحکام اور انسداد دہشت گردی کے امور پر باہمی دلچسپی کے ضمن میں تعاون کو مضبوط کرنے کا موقع فراہم ہوگا۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ مستحکم، محفوظ اور خوشحال پاکستان کے مشترکہ مفاد کو فروغ دینے کے سلسلے میں، امریکی صدر وزیر اعظم نواز شریف سے بات چیت کے منتظر ہیں۔