کسی پرانی عمارت کے جھجوں پر غٹرغوں کرتے کچھ کبوتر، منڈیروں سے اترتے شام کے گہرے سائے، گھر کے خالی صحنوں کے کنارے والی اونچی دیواروں میں بنے موکھلے اور ان موکھلوں میں ننھی ننھی چڑیوں کے بنائے ہوئے گھانس پھونس کے گھونسلے، برآمدے کے لمبے چوڑے دروں پر ہوا سے جھولتے چلمن، راہ داریوں میں شور مچاتی خاموشیاں، شام ڈھلے طاقوں میں رکھے روشن چراغ اور پتھریلے چبوتروں پر دسمبر کی سردیوں سے سکڑتی، کانپتی دھوپ کی سنہری چمک۔۔ بچپن کی یادوں میں بسے یہ منظر سوچو تو کتنے سہانے لگتے ہیں۔۔یوں جیسے ہم سے بچھڑ گئے ہوں ۔۔۔
حالانکہ پرندے اب بھی اسی طرح چہچہاتے ہیں۔۔ منڈوں پر کبوتروں کے جھنڈ اب بھی یوں براجمان ہوتے ہیں، موکھلے اب بھی آباد ہیں ۔۔۔ سردیوں کا سورج اب بھی اپنے آپ میں یوں ہی سمٹتا ہے۔ لیکن۔۔۔ اب لوگوں کے پاس ان صحنوں، برآمدوں اور چبوتروں کو ایک نظر دیکھنے کا بھی وقت نہیں رہا۔۔۔ہم سب وقت کی تیررفتار ٹرینوں میں سوار ہیں۔۔مگر کبھی کبھی رانا محمد طاہر جیسا فوٹوگرافر اپنے کیمرے کے لینس سے وہ سہانے منظر ہوبہو سامنے ضرور لے آتا جو ہمارے ماضی سے ۔۔ ہماری تاریخ سے جڑے ہیں۔۔۔
پچھلے دو دن سے آرٹس کونسل کراچی کی دیواروں پر ایسی ہی’کراچی کی گمشدہ تاریخ‘ کا پتہ دیتی تصویریں جڑی ہیں جو عمارتوں کی زبانی ۔۔سال در سال کی کہانی کہہ رہی ہیں۔ رانا محمد طاہر سے جب وائس آف امریکہ کے نمائندے نے ان عمارتوں کی تفصیل جاننا چاہی تو وہ یوں گویا ہوئے:
’میں ان عمارتوں کی ترجمانی کیا کروں۔۔ موٹر سائیکل پر سوار ہوکر شہر کے وسطی علاقوں سے نکلتے جائیے، ہر عمارت اپنا سینہ چیر کر اپنی تاریخ دہراتی مل جائے گی۔ ان عمارتوں کی طرز تعمیر جو کہیں شہر کے قدیم باسیوں یعنی پارسیوں کے دور کی یاد دلاتی نظر آئے گی تو کہیں ہندی زبان میں ہندو فن تعمیر کے نمونے بولتے دکھائی دے جائیں گے۔ قدیم سندھی تعمیر کی تراش خراش، دور مغلیہ کا طرز، مسلم فن تعمیر ۔۔۔کیا کچھ نمونے آپ کو نہ ملیں گے۔۔۔ لیکن افسوس ۔۔وقت کی گرد انہیں ہر لمحہ نگل رہی ہے۔۔‘
اُن کے بقول، ’کراچی کی تاریخی عمارتوں اور ان پر موجود نقش و نگار، ہندو دیوتاوٴں کے مجسموں، پارسی مت کی بیلوں، پھولوں، پرنالوں، بوٹوں، منعقش منڈیروں، ’بالکنی‘، کھڑکیوں، کھپریلوں، مندر اور کلیساوٴں کی گھنٹیوں، مساجد کی میناروں اور لکڑی کی بنی مخصوص طرز کی جعفریوں کو میں نے اپنے کیمرے کی آنکھ میں بند کرکے لوگوں کے سامنے اس نمائش کی صورت میں پیش کیا ہے۔ یہ عمارتوں اور شہر کی تاریخ کا ہی لیکھا جوکھا نہیں بلکہ بین المذاہب کی ایسی عکاسی ہے جو میرے مطابق کراچی کے شہریوں کو کم کم ہی دیکھنے کو ملتی ہوگی۔‘
رانا محمد طاہر کے مطابق، ان کے پاس شہر کی قدیم عمارتوں کی 1700 نادر تصاویر موجود ہیں۔ ان تصاویر کی ماضی میں بھی نمائش ہوچکی ہے۔ اس وقت جاری نمائش کا افتتاح سندھ کے سینئر وزیر برائے انفارمیشن نثار احمد کھُہڑو نے کیا تھا، جبکہ پچھلے تین دنوں میں فن و تاریخ کے انگنت قدردانوں نے اس نمائش سے فیض حاصل کیا ہے۔