جنوبی افریقہ کے سابق صدر نیلسن منڈیلا کو اہل خانہ اور قریبی دوستوں کی موجودگی میں اتوار کو ان کے آبائی قصبے کونو میں سپردخاک کردیا گیا۔
وہ طویل علالت کے بعد 95 برس کی عمر میں پانچ دسمبر کو انتقال کر گئے تھے۔
اتوار کو آخری رسومات میں اسٹیج پر مسٹر منڈیلا کی ایک قدآدم تصویر کے سامنے ان کی عمر کے ہر سال کی علامت کے طور پر 95 موم بتیاں روشن کی گئیں۔
نسلی امتیاز کے خلاف جدوجہد کی علامت سمجھنے جانے والے منڈیلا کی آخری رسومات اتوار کی صبح کونو میں ہوئیں جس میں مختلف ممالک کے سربراہان، برطانوی شہزادہ چارلس اور لگ بھگ ساڑھے چار ہزار افراد شریک تھے۔
جنوبی افریقہ کے صدر جیکب زوما نے اس موقع پر مسٹر منڈیلا کو ’’دانش کا سرچشمہ، طاقت کا ستون اور مساوات کے لیے جدوجہد کرنے والوں کے لیے مشعل راہ‘‘ قرار دیا۔
منڈیلا کی پوتی ننڈی منڈیلا نے انھیں یاد کرتے ہوئے کہا وہ ایک سخت طبیعت کے دادا تھے جو اپنے بچپن کی کہانیاں سنانا پسند کرتے تھے۔ انھوں نے اپنے خراج عقیدت کا اختتام ان الفاظ پر کیا۔
’’ مدیبا آپ خیریت سے جائیں۔ ۔ ۔ ہمارے آباؤ اجداد کی طرف آپ خیریت سے جائیں، آپ نے اپنی نسل کو اچھے انداز میں چلایا۔‘‘
اس سے قبل منڈیلا کے قبیلے اور خاندان کے اہم افراد روایتی گیت گاتے رہے جو ان آخری رسومات کا اہم حصہ ہیں۔ ان کی تابوت پر شیر کی کھال رکھی گئی جو روایات کے مطابق اس قبیلے کے رہنما کی میت پر رکھی جاتی ہے۔
ہفتہ کو منڈیلا کے تابوت کو پریٹوریا سے ایک خصوصی طیارے کے ذریعے کونو روانہ کیے جانے سے قبل افریقی نیشنل کانگریس نے انھیں آخری سلام پیش کیا۔ ان کی میت تین روز تک پریٹوریا میں دیدارعام کے لیے رکھی گئی تھی جہاں حکام کے بقول ایک لاکھ سے زائد افراد نے اپنے آنجہانی رہنما کا آخری دیدار کیا۔
منگل کو جوہانسبرگ میں ہونے والی ایک بڑی دعائیہ تقریب میں دنیا بھر سے عالمی رہنما شریک ہوئے تھے۔
وہ طویل علالت کے بعد 95 برس کی عمر میں پانچ دسمبر کو انتقال کر گئے تھے۔
اتوار کو آخری رسومات میں اسٹیج پر مسٹر منڈیلا کی ایک قدآدم تصویر کے سامنے ان کی عمر کے ہر سال کی علامت کے طور پر 95 موم بتیاں روشن کی گئیں۔
نسلی امتیاز کے خلاف جدوجہد کی علامت سمجھنے جانے والے منڈیلا کی آخری رسومات اتوار کی صبح کونو میں ہوئیں جس میں مختلف ممالک کے سربراہان، برطانوی شہزادہ چارلس اور لگ بھگ ساڑھے چار ہزار افراد شریک تھے۔
جنوبی افریقہ کے صدر جیکب زوما نے اس موقع پر مسٹر منڈیلا کو ’’دانش کا سرچشمہ، طاقت کا ستون اور مساوات کے لیے جدوجہد کرنے والوں کے لیے مشعل راہ‘‘ قرار دیا۔
منڈیلا کی پوتی ننڈی منڈیلا نے انھیں یاد کرتے ہوئے کہا وہ ایک سخت طبیعت کے دادا تھے جو اپنے بچپن کی کہانیاں سنانا پسند کرتے تھے۔ انھوں نے اپنے خراج عقیدت کا اختتام ان الفاظ پر کیا۔
’’ مدیبا آپ خیریت سے جائیں۔ ۔ ۔ ہمارے آباؤ اجداد کی طرف آپ خیریت سے جائیں، آپ نے اپنی نسل کو اچھے انداز میں چلایا۔‘‘
اس سے قبل منڈیلا کے قبیلے اور خاندان کے اہم افراد روایتی گیت گاتے رہے جو ان آخری رسومات کا اہم حصہ ہیں۔ ان کی تابوت پر شیر کی کھال رکھی گئی جو روایات کے مطابق اس قبیلے کے رہنما کی میت پر رکھی جاتی ہے۔
ہفتہ کو منڈیلا کے تابوت کو پریٹوریا سے ایک خصوصی طیارے کے ذریعے کونو روانہ کیے جانے سے قبل افریقی نیشنل کانگریس نے انھیں آخری سلام پیش کیا۔ ان کی میت تین روز تک پریٹوریا میں دیدارعام کے لیے رکھی گئی تھی جہاں حکام کے بقول ایک لاکھ سے زائد افراد نے اپنے آنجہانی رہنما کا آخری دیدار کیا۔
منگل کو جوہانسبرگ میں ہونے والی ایک بڑی دعائیہ تقریب میں دنیا بھر سے عالمی رہنما شریک ہوئے تھے۔