نیپال میں جن دو بڑی پارٹیوں نے نومبر میں انتخابات میں حصہ نہ لینے کا اعلان کیا ہے، ان میں سے ایک کانگریس پارٹی ہے ۔
یہ انتخابات ایک نئی آئین ساز اسمبلی چننے کے لیے ہو رہے ہیں جو نیپال کے لیئے ایک جمہوری آئین کا مسودہ تیار کرے گی۔ آخری اسمبلی، جو 2008 میں منتخب ہوئی تھی، دو بار توسیع ملنے کے باوجود، یہ کام مکمل نہیں کر سکی۔
جب اس کی مدت 27 مئی کو ختم ہو گئی اور پارلیمینٹ ختم کر دی گئی، تو وزیر اعظم بابو رام بھٹارائی نے خود کو نگراں حکومت کا سربراہ مقرر کر لیا۔
لیکن نیپالی کانگریس پارٹی کے لیڈر، ارجن نرسنگھا نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ان کی پارٹی ان انتخابات میں حصہ نہیں لے گی جو مسٹر بھٹارائی کی حکومت منعقد کرے گی۔ انہوں نے کہا’’یہ حکومت غیر قانونی ہے ۔ انہیں اقتدار میں رہنے کا حق نہیں ہے ۔ انہیں انتخاب کرانے کا کوئی سیاسی یا انتظامی حق حاصل نہیں ہے ۔ اس حکومت کو استعفیٰ دے دینا چاہیئے ۔‘‘
نگران حکومت کے لیے جس کی سربراہی ماؤ نوازوں کے پاس ہے، اتنے سخت الفاظ سے ان سنگین مسائل کی نشاندہی ہوتی ہے جو نیپال کو درپیش ہیں کیوں کہ اس کے عوام کئی ٹکڑوں میں بٹے ہوئےہیں۔
چار سال قبل، موڈ بالکل مختلف تھا ۔ ماؤ نوازوں کی دس سال سے جاری شورش ختم ہو چکی تھی اور بادشاہت کالعدم قرار دے دی گئی تھی۔ ایسا لگتا تھا کہ نیپال کا شمار دنیا کی بالکل نئی جمہورتیوں میں ہونے لگے گا۔ تا ہم، ملک کی تین بڑی سیاسی پارٹیوں کے درمیان گہرے اختلافات اور چپقلش سے ایسا تعطل پیدا ہو گیا ہے جس کا طے ہونا آسان نہیں۔
نیپالی کانگریس پارٹی اور کمیونسٹ پارٹی کو ماؤ نوازوں پر کوئی اعتماد نہیں۔ نگراں حکومت کے سربراہ ماؤ نواز ہیں، اور آخری انتخابات میں سب سے زیادہ نشستیں انہیں کو ملی تھیں۔
نیپالی کانگریس اور کمیونسٹ پارٹی کا اصرار ہے کہ ماؤ نواز آزادانہ اور منصفانہ انتخابات نہیں کرائیں گے ۔وہ نئی حکومت کا حصہ بننا چاہتی ہیں جو انتخابات کی نگرانی کرے گی۔
کٹھمنڈو میں نیپال کے سنٹر فار کنٹمپریری اسٹڈیز کے لوک راج برال کہتے ہیں کہ ملک میں نیپال کے سیاسی لیڈروں کے متحد ہونے اور ملک کو نیا آئین دینے کے بارے میں شکو ک و شبہات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے ۔ وہ ان لیڈروں پر اقتدار حاصل کرنے کے لیے جوڑ توڑ کرنے کا الزام عائد کرتے ہیں۔
وہ کہتےہیں’’یہ سیاسی پارٹیوں کی ناکامی ہے ۔ میں کسی ایک پارٹی کو الزام نہیں دیتا۔ یہ تمام سیاسی لیڈروں کی ناکامی ہے ۔ وہ کرسی کی سیاست میں بری طرح الجھ کر رہ گئےہیں۔ انھوں نے آئین کا مسودہ بنانے پر کوئی توجہ نہیں دی۔‘‘
آئین کی تشکیل ایک اہم نکتے میں اٹک کر رہ گئی ہے ، یعنی یہ کہ کیا ملک کو نسلی خطوط پر ایک درجن چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں تقسیم کر دیا جائے تا کہ نسبتاً زیادہ بڑے اقلیتی گروپوں کو سیاسی طاقت مل جائے ۔ اس تجویز کو ماؤ نوازوں اور بہت سی چھوٹی چھوٹی نسلی پارٹیوں کی حمایت حاصل ہے ۔ا ن کا کہنا ہے کہ اقلیتوں کو، جنہیں صدیوں سے نظر انداز کیا جاتا رہا ہے، بہتر نمائندگی ملنی چاہیئے ۔
لیکن نیپالی کانگریس پارٹی اور کمیونسٹ پارٹی، جو روایتی حکمراں طبقے کی نمائندگی کرتی ہیں، کہتی ہیں کہ نسلی وفاقیت سے ملک کے ٹکڑے ٹکڑے ہوجانے کا خطرہ پیدا ہو جائے گا۔
مبصرین کو پریشانی ہے کہ سیاسی تعطل روز بروز شدید ہوتاجا رہا ہے۔ امریکہ میں قائم غیر سرکاری گروپ کارٹر سنٹر ان نیپال کی سارا لیویٹ کہتی ہیں کہ یہ بات اہم ہےکہ آگے بڑھتے ہوئے، سیاسی اتفاق رائے کی خد و خال واضح ہوتے جائیں۔
’’کافی اچھا کام ہو چکا ہے ۔ یہ لوگ تقریباً تمام مسائل پر سمجھوتہ کر چکے ہیں ۔ یہ بات صحیح ہے کہ وفاقیت ایک بڑا چیلنج تھا جو طے نہیں ہوا تھا، لیکن اس معاملے میں بھی ان لوگوں نے بڑی حد تک مشترکہ رائے تلاش کر لی۔ لہٰذا اب ہر ایک کی امید یہی ہے کہ گذشتہ چار برسوں میں جو کام ہو چکا ہے، اس پر بات آگے بڑھ سکتی ہے، اور سیاسی عمل وہیں سے پھر شروع ہو سکتا ہے جہاں سے یہ سلسلہ ٹوٹا تھا ۔‘‘
ان توقعات کو پورا کرنا آسان نہیں ہو گا۔ اخبار نیپالی ٹائمز کے ایڈیٹر، کنڈا ڈکشٹ کہتے ہیں کہ نیپال خود کو مہینوں کی سیاسی غیر یقینی کی کیفیت کے لیے تیار کر رہا ہے ۔ لیکن، اس کے ساتھ ہی، بہت سے لوگوں کا یہ خیال بھی ہے کہ آئین کا مسودہ تیار کرنے میں کچھ اور وقت لینا، ہو سکتا ہے کہ لمبے عرصے کے لیے ملک کے حق میں بہتر ہو۔ ’’ایک ایسا آئین بنانے سے جو ہر لحاظ سے ناقص ہو، یہ بات بہتر ہوگی کہ آئَین نہ بنے۔ لہٰذا ، اس معاملے کا ایک روشن پہلو بھی ہے ۔‘‘
فی الحال، نیپال کو کچھ بنیادی مسائل درپیش ہیں: سیاسی طور پر اس کی نگراں حکومت کی قانونی حیثیت کے بارے میں سوالات اٹھائے جا رہے ہیں، اور اب تک سیاسی پارٹیوں کے درمیان کسی نئے آئین کے بارے میں کسی سمجھوتے کے کوئی آثار نظر نہیں آتے۔