نیپال کے سابق باغی اپنے ہتھیار نئے وزیر اعظم بھٹہ رام بھاٹا رائے کی نگرانی میں کام کرنے والی ایک خصوصی کمیٹی کے حوالےکرنے پر تیار ہوگئے ہیں۔
اطلاعات کے مطابق 2006ء میں علیحدگی پسندوں کی جنگ ختم ہونے کے بعد تقریباً 3400 ماؤنواز باغیوں کے ہتھیار سات مختلف مقامات پر ذخیرہ کیے گئے تھے۔ سابقہ دور کے باغی، جن کے پاس اس وقت نیپال کی پارلیمنٹ میں سب سے زیادہ نشستیں ہیں ، اتوار کے روز نئے ماؤ نواز وزیر اعظم کے انتخاب کے بعد اپنے ہتھیار حکومت کے حوالے کرنے پر تیار ہوگئے ہیں۔
کھٹمنڈو میں امریکی سفارت خانے کا کہناہے کہ یہ اقدام اس جانب اشارہ ہے کہ ماؤنواز امن کا عمل مکمل کرنے کے اپنے وعدے کی تکمیل کی جانب بڑھ رہے ہیں۔
نیپال کے ماؤنوازوں کو 2006ء میں امن معاہدے کے بعد حکومت میں شرکت کی اجازت دے دی گئی تھی۔ اس معاہدے کے نتیجے میں ملک میں ایک عشرے پر محیط شورش کا خاتمہ ہواتھا جس میں 13 ہزار سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے تھے۔
نیپال میں امن کا عمل بڑی پارٹیوں کے درمیان گہرے اختلافات کے باعث تعطل کاشکار ہے۔ پارٹیاں نئے آئین کی شکل اور تقریباً 19 ہزار سابق ماؤ نواز جنگجوؤں کے مقدر پر متفق نہیں ہیں، جواس وقت کیمپوں میں اپنی زندگی گذار رہے ہیں۔