عمران خان کی گرفتاری کے دوران پولیس اور کارکنوں کے درمیان تصادم کا معاملہ پاکستان میں سوشل میڈیا پر بھی موضوعِ بحث بنا ہوا ہے۔
بعض صارفین عمران خان کی حمایت کرتے نظر آتے ہیں تو وہیں کچھ کا کہنا ہے کہ قانون سب کے لیے برابر ہونا چاہیے۔
پولیس اور پی ٹی آئی کارکنان کے درمیان منگل کی دوپہر سے جھڑپیں شروع ہوئیں جو بدھ کو بھی جاری رہیں۔ پولیس نے پی ٹی آئی کارکنان کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کے شیل فائر کیے جب کہ واٹر کینن کا استعمال کیا جب کہ لاٹھی چارج بھی ہوا۔
زمان پارک کے اطراف جاری تصادم کے بعد سوشل میڈیا پر مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد اپنا ردِعمل دے رہے ہیں۔
صحافی وجاہت ایس خان نے عمران خان کی آنسو گیس کے شیلز کے ساتھ ایک تصویر شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ پاکستان اپنے لیڈروں کے ساتھ ایسا ہی سلوک کرتا ہے۔
انہوں نے لکھا کہ "وہ آپ کو یا تو ماردیتے ہیں یا جلا وطن کرا دیتے ہیں اور جب وہ ناکام ہوجاتے ہیں تو وہ آپ کے گھر اور لوگوں پر حملہ کرتے ہیں۔ لیکن اس مرتبہ کچھ اور محسوس ہو رہا ہے۔
صحافی مہر بخاری نے عمران خان کی شیلز کے ساتھ والی تصویر شیئر کرتے ہوئے کیپشن لکھا کہ یہ وہ تصویر ہے جس نے حکومت سے بیانیہ چھین لیا ہے۔
اسی ٹوئٹ کے جواب میں صحافی منیب فاروق نے کہا کہ کمال ہے۔ اسلحے کے بغیر اگر آنسو گیس بھی استعمال نہیں ہوسکتی تو پھر پولیس کو صرف لاؤڈ اسپیکر استعمال کرنا چاہیے؟
ادکار و گلوکار فرحان سعید نے لکھا کہ عمران خان جب وزیرِاعظم بنے تھے تو تمام اداکار، کھلاڑی انہیں مبارک باد دینے میں جلدی کرتے تھے اور ان کے پاس جاکر ملتے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ آج یا تو انہوں نے عمران خان کے بارے میں رائے بدل لی ہے یا پھر وہ بولنے سے ڈر رہے ہیں جو تشویش ناک ہے۔
صحافی مبشر زیدی نے زمان پارک کے واقعے پر کہا کہ عمران خان نے آج سیاست دان کی طرح کھڑے ہوکر باہر آکر گرفتاری دینے کا موقع گنوا دیا۔
ان کے بقول سیاسی رہنما سامنے سے قیادت کرتے ہیں۔ انسانوں کو ڈھال نہیں بناتے۔
اسی طرح کا ایک ٹوئٹ منگل کی رات مہر بخاری نے بھی کیا اور لکھا کہ لیڈر کو قیادت کرنی چاہیے۔ عمران خان مقدمات کی نوعیت سے بالاتر ہوکر باہر آئیں اور گرفتاری دیں۔
ادھر سابق امریکی نمائندے برائے افغانستان زلمے خلیل زاد نے اپنے ٹوئٹس میں کہا کہ پاکستان کو تین بحرانوں کا سامنا ہے۔ سیاسی، اقتصادی اور سیکیورٹی۔
انہوں نے کہا کہ ملک کے لیڈروں کی جیلوں میں ڈالنے، پھانسی دینے، قتل کرنے کے ذریعے سلسلے وار تبدیلی غلط راستہ ہے۔ عمران خان کی گرفتاری سے بحران مزید سنگین ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ" میں دو اقدامات پر زور دیتا ہوں۔ ایک یہ کہ خرابی کو روکنے کے لیے جون کے اوائل میں عام انتخابات کے لیے تاریخ مقرر کریں۔ دوسرا یہ کہ اس وقت کو اہم سیاسی جماعتوں کے لیے استعمال کریں کہ کیا غلط ہوا ہے، ساتھ ہی ملک کو بچانے اور استحکام، سلامتی اور خوشحالی کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے ایک مخصوص منصوبہ تجویز کریں۔"
ان کا کہنا تھا کہ جو جماعت بھی الیکشن میں جیتے گی اس کے پاس عوام کا مینڈیٹ ہوگا کہ اسے کیا کرنا چاہیے۔
ادھر صحافی عمار مسعود نے سابق صدر آصف زرداری کی ایک ویڈیو شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ ایسی ہوتی ہے گرفتاری جب سیکیورٹی اہلکار سابق صدر کو گرفتار کرنے آئے تو انہوں نے ان کا حال احوال پوچھا، چائے بسکٹ سے تواضع کی اور جیل روانہ ہوئے۔
زمان پارک تصادم پر فن کار شفاعت علی نے ایک ٹوئٹ کیا کہ "ذرا سوچیے، اگر وفاقی پولیس آصف زرداری کی گرفتاری کے لیے بلاول ہاؤس پہنچتی اور وہاں سندھ پولیس ان پر بندوقیں سیدھی کرلیتی؟ یا وفاقی پولیس جاتی امرا پہنچتی اور وہاں پنجاب پولیس ان پر بندوقیں تان لیتی؟ کیا اسے تب بھی زرداری یا شریفوں کی کامیابی کہا جاتا؟
یوٹیوبر شاہ ویر جعفری نے ایک ٹوئٹ میں لکھا کہ "کاش عمران خان نے اپنے بارے میں زیادہ سوچا ہوتا تو وہ ایک شاہانہ ریٹائرڈ زندگی گزار رہے ہوتے۔ اس کے برعکس انہوں نے ہمارے اور ہمارے مستقبل کے بارے میں سوچا اور نظام چاہتا ہے کہ وہ چلے جائیں۔ ایک سچا جنگجو، ایک سچا لیڈر۔"