رسائی کے لنکس

عمران خان کی بلر تصویر:'کوئی اے آر وائی کو بتائے تصویر چھپانے سے حقیقت نہیں بدلتی'


پاکستان کے سابق وزیرِ اعظم اور تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خان کی تصویر بلر کر کے نشر کرنے پر مقامی ٹی وی چینل 'اے آر وائی' تنقید کی زد میں ہے۔

عمران خان سے عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے ایک وفد نے جمعے کو زمان پارک میں ایک گھنٹہ طویل ملاقات کی تھی۔ اس موقع پر شاہ محمود قریشی بھی موجود تھے جب کہ پی ٹی آئی کے بعض دیگر رہنما ویڈیو لنک پر تھے۔

اے آر وائی چینل نے اس ملاقات کی ویڈیو نشر کرتے وقت پیمرا کی ہدایات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے عمران خان کا چہرہ چھپا دیا تھا جس کے بعد سے سوشل میڈیا پر یہ معاملہ گرم ہے کہ ایک سیاسی جماعت کے لیڈر کی تصویر کو اس طرح کیوں چھپایا گیا؟

سماجی رابطے کی سائٹ ٹوئٹر پر پاکستان میں ہیش ٹیگ 'شیم آن اے آر وائی' ٹاپ ٹرینڈ بنا ہوا ہے جہاں صارفین چینل پر تنقید کر رہے ہیں۔

ایک ٹوئٹر صارف نے لکھا کہ قوم یہ برداشت نہیں کرے گی کہ اس کے لیڈر کی تصویر کو اس طرح دکھایا جائے۔

ایم خان راجا نامی ٹوئٹر صارف نے عمران خان کی تصویر بلر کر کے نشر کرنے پر سوال کیا کہ یہ کیا ہے؟ اگر آپ خان کو دکھانا نہیں چاہتے تو پھر انہیں نہ دکھائیں۔

محمد احمر نے لکھا کہ پاکستان میں جمہوریت کے نام پر بدترین آمریت ہے، جہاں مقبول ترین لیڈر پر پابندی ہے۔

واضح رہے کہ پاکستان میں ٹی وی چینلز کے نگراں ادارے پیمرا نے عمران خان کا نام لیے بغیر ایک حکم نامہ تمام اداروں کو جاری کیا تھا جس میں نفرت انگیز مواد چلانے اور ایسی شخصیات جو پیمرا کے بقول نفرت پھیلا رہی ہیں ان کی باتوں کو نشر کرنے سے منع کیا گیا تھا۔

​انسانی حقوق کے کارکن عمران خان کے میڈیا بلیک آؤٹ کی مخالفت کرتے ہیں۔ مقامی میڈیا میں کوریج پر پابندی کے بعد عمران خان وقتاً فوقتاً سوشل میڈیا پر خطاب کرتے رہتے ہیں۔

آئی ایم ایف وفد سے ملاقات کی کوریج کا معاملہ آیا تو اے آر وائی چینل نے عمران خان کا چہرہ چھپا کر اس خبر کی کوریج کی لیکن سوشل میڈیا صارفین کو یہ انداز بالکل نہ بھایا۔

سابق کرکٹر اور عمران خان کے ساتھ 1992 کی ورلڈ کپ فاتح ٹیم میں شامل جاوید میاں داد نے ایک ٹوئٹ میں 1992 کی وہ تصویر شیئر کی جس میں عمران خان ٹرافی اٹھائے ہوئے ہیں۔لیکن انہوں نے اس تصویر میں عمران خان کو بلر کردیا۔

جاوید میاں داد نے اس تصویر کے ساتھ طنزیہ انداز میں لکھا کہ اگر پاکستان موجودہ دورِ حکومت میں ورلڈ کپ جیتتا تو مجوزہ تصویر ایسی ہوتی۔

محمد حیات نامی ٹوئٹر صارف کہتے ہیں "کوئی اے آر وائی کو یہ سمجھائے کہ کسی کی تصویر کو بلر کرنے سے حقیقت نہیں بدل جاتی۔ اے آر وائی، آپ احترام کے مستحق نہیں ہیں۔"

ریحانہ نامی صارف نے لکھا کہ جب آپ اے آر وائی کے کسی پروگرام کا کلپ سوشل میڈیا پر شیئر کریں تو لازمی طور پر اینکر کی شکل چھپا دیں۔

سعدیہ نامی ٹوئٹر صارف کہتی ہیں کہ عمران خان سیاست میں آنے سے قبل قومی ہیرو تھے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ نیوز چینل نے کیا کیا، لیکن عمران خان ہمیشہ ہمارے دلوں میں رہیں گے۔

عریشہ عمر نے اے آر وائی چینل کا لوگو شیئر کرتے ہوئے اس پر تبصرہ کیا کہ آپ نے تصویر سے عمران خان کو نکالا، ہم آپ کو نکال دیں گے۔

عثمان اکرم نے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ پاکستان میں آزادیٔ اظہار کا یہ لیول ہے۔ ایسا کرنے پر اے آر وائی کو شرم آنی چاہیے۔ یہ سب کچھ اس شخص کے ساتھ کیا جس نے چینل کو سپورٹ کیا اور وہ چینل کی ویوور شپ بڑھنے کا سبب بھی بنا۔

طارق عزیز نامی صارف لکھتے ہیں کہ یہ تصویر موجودہ حکومت اور ان کے سہولت کاروں کا پیچھا کرے گی۔

XS
SM
MD
LG