رسائی کے لنکس

نئی افغان پالیسی اب پینٹاگون بنا رہا ہے، تجزیہ کار


افغان کمانڈو جلال آباد کے ضلع اچن کے دیہی علاقے میں گشت کر رہے ہیں۔ فائل فوٹو
افغان کمانڈو جلال آباد کے ضلع اچن کے دیہی علاقے میں گشت کر رہے ہیں۔ فائل فوٹو

رچرڈ باؤ چر کا کہنا تھا کہ اگر آپ افغانستان میں جاری کوششوں میں بھارت کو زیادہ گہرائی کے ساتھ شامل کرتے ہیں تو اس سے فوری طور پر پاکستان اور چند دیگر ممالک کے لیے مشکلات کھڑی ہو جاتی ہیں۔

امریکی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ افغانستان سےمتعلق امریکی پالیسی کی نوعیت اور کردار کا تعین اب امریکی جرنیل کریں گے، جن کے خیال میں ، پاکستان، وہاں جاری بغاوت کو کچلنے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔

امریکہ اور بھارت میں بڑھتی ہوئی قربتوں اور سعودی عرب میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا اپنے خطاب میں متعدد مسلمان ملکوں کے ساتھ بھارت کے تذکرے اور پاکستان کا ایک دفعہ بھی نام نہ لیے جانے سے یہ سوال پیدا ہو رہا ہے کہ کیا امریکہ پاکستان کے لیے اپنی پالیسی میں کوئی تبدیلی لا رہا ہے یا کیا وہ بھارت کے لیے کوئی نئی پالیسی ترتیب دے رہا ہے؟

وائس آف امریکہ کی اردو سروس سے بات کرتے ہوئے، مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ میں سینٹر فار پاکستان اسٹڈیز کے سربراہ ، ڈاکٹر مارون وائن بام کا کہنا ہے کہ ان کے خیال میں پاکستان کے لیے کوئی پالیسی وضع نہیں کی گئی، اور ہو گی بھی نہیں، جب تک کہ افغانستان کے لئے کوئی پالیسی طے نہیں ہو جاتی۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے ساتھ امریکہ کے دو طرفہ تعلقات کی نوعیت افغانستان کے ساتھ تعلقات کے فیصلے سے منسلک ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر وہ اندازہ لگائیں کہ کیا ہو گا، تو ان کے خیال میں افغانستان کے مسئلے پر تعاون کے لیے پاکستان پر نیا دباؤ ڈالا جائے گا۔ اس سے کچھ فرق پڑے گا یا نہیں ، یہ بات معنی نہیں رکھتی۔

ڈاکٹر مارون کا کہنا تھا تاہم ایسا ہونا ہی تھا۔ کیونکہ اب امریکی جرنیل افغانستان کے لیے پالیسی کی نوعیت کو طے کریں گے، اور ہم سب جانتے ہیں کہ امریکی افواج شدت سے یہ محسوس کرتی ہیں کہ افغانستان میں جاری بغاوت کے خلاف کامیاب کاروائیوں کی راہ میں حائل سب سے بڑی رکاوٹ پاکستان ہے۔

امریکہ کے سابق معاون وزیر خارجہ برائے جنوبی اور وسطی ایشیا رچرڈ باؤ چر کا کہنا ہے کہ اس بارے میں کچھ بھی وثوق سے نہیں کہا جا سکتا کیونکہ اس وقت پالیسی پر نظر ثانی کی جا رہی ہے ۔

انہوں نے کہا کہ افغان پالیسی پر نظر ثانی بنیادی طور پر اس سوال سے شروع ہوئی تھی کہ کیا ہمیں افغانستان میں مزید افواج بھیجنی چاہیے یا نہیں، اور پھر اسے وسعت دے کر اس میں افغانستان میں استحکام کے قیام کو شامل کیا گیا اور پھر اس کا دائرہ مزید پھیلاتے ہوئے ، اس میں پاکستان کے ساتھ تعلقات کو شامل کیا گیا۔ اس لئے جب تک یہ پالیسی سامنے نہیں آتی ہم کچھ بھی یقین سے نہیں کہہ سکتے۔

رچرڈ باؤچر کا کہنا تھا کہ وہ اس بات سمجھتے ہیں اور وہ یہ دیکھ رہے ہیں کہ پاکستان کو ایک مسئلے کے طور پر دیکھنے کی بجائے، افغان مسئلے کے حل میں کیسے شامل کیا جائے۔ بحر حال یہ ایک پیچیدہ معاملہ ہے۔ میرے خیال میں پالیسی میں نظر ثانی پر توقع سے زیادہ تاخیر کی ایک وجہ یہ بھی ہے۔

مگر کیا امریکہ بھارت کے لیے کوئی نئی پالیسی بنا رہا ہے اور کیا وہ افغان جنگ میں بھارت کو قریبی اتحادی بنانا چاہتا ہے۔ اس حوالے سے دونوں تجزیہ کاروں کا کہنا تھا کہ ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ حالیہ برسوں میں امریکہ اور بھارت کے تعلقات میں قربت آئی ہے۔ دوسرا یہ کہ ٹرمپ مضبوط قیادت کو پسند کرتے ہیں۔ جب مودی گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے، تو ان کے امریکہ آنے پر پابندی تھی۔ لیکن اب جب وہ یہاں آئیں گے تو ان کا شاندار استقبال کیا جائے گا۔ اس کے یقیناً اثرات مرتب ہوں گے۔ تو آئندہ دنوں میں جو بھی تبدیلی آئے گی وہ دونوں راہنماؤں کی ذاتی سطح پر ہو گی۔

رچرڈ باؤچر کا کہنا تھا کہ میں یہ نہیں کہوں گا کہ کوئی بالکل نئی چیز ہے ۔ لیکن یہ نئی انتظامیہ کی توجہ کا مرکز ضرور ہے اور یقیناً گذشتہ 10سے 15 سال کے دوران بھارت کے ساتھ بنائے گئے تجارتی ، عسکری اور اسٹریٹیجک روابط کو جاری رکھنے اور انہیں وسعت دینے کی ایک کوشش بھی ہے۔

جب کہ ڈاکٹر مارون وائن بام کا کہنا تھا کہ میرے خیال میں امریکہ کی بھارت کے لیے پالیسی میں کوئی تعطل نہیں آئے گا۔ اور جیسا کہ میں کہہ چکا ہوں کہ بھارت کے ساتھ مزید گہرے روابط کی پالیسی اب جاری رہے گی۔ لیکن اس کے پاکستان کے لیے کیا معنی ہوں گے، یہ ایک الگ معاملہ ہے

افغانستان میں جاری جنگ میں بھارت کے قریب اتحادی بننے سے متعلق سوال پر رچرڈ باؤ چر کا کہنا تھا کہ یہ ہمیشہ سے ہی مشکلات کا باعث رہا ہے، کیونکہ اگر آپ بھارت کو افغانستان میں جاری کوششوں میں بھارت کو زیادہ گہرائی کے ساتھ شامل کرتے ہیں تو اس سے فوری طور پر پاکستان اور چند دیگر ممالک کے لیے مشکلات کھڑی ہو جاتی ہیں۔

جب کہ ڈاکٹر مارون کا کہنا تھا کہ امریکہ بھارت کے تعاون پر انحصار کر رہا ہے، عسکری حوالے سے نہیں، بلکہ اس لیے کہ بھارت کابل حکومت کی حمایت کرے۔ لیکن ایک چیز جو ہم چاہیں گے کہ وہ نہ ہونے پائے، اور اس چیز کے متعلق اب کچھ باتیں بھی ہو رہی ہیں ، وہ ہے کہ بھارت طالبان کے ساتھ رابطے بنانے کی کوشش کرے۔ اگر ایسا ہوا تو یہ ایک منفی بات ہو گی۔

مگر جیسا کہ تجزیہ کار پہلے سوچ رہے تھے کہ ٹرمپ انتظامیہ ، افغانستان اور پاکستان کے لیے اوباما انتظامیہ کی طے کردہ ایف پاک پالیسی کو جاری نہیں رکھے گی، تو اب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ موجودہ امریکی انتظامیہ کی نئی افغان پالیسی ، ایک حوالے سے ایف پاک پالیسی کا ہی تسلسل ہو گی۔

XS
SM
MD
LG