انجم گل
امریکی تجزیہ کاروں کے نزدیک، افغانستان کے لئے امریکہ کی نئی مجوزہ حکمتِ عملی میں امریکی افواج کو مزید اختیارات کے ساتھ عسکری کارروائیوں میں شامل کیا جائے گا۔ تاہم اِس نئی حکمتِ عملی کے موثر ہونے کے بارے میں، اُنہیں زیادہ اُمید نہیں ہے، جبکہ تجزیہ کاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ نئی انتظامیہ، سابق انتظامیہ کی افغانستان اور پاکستان کیلئے ایف پاک نامی مشترکہ پالیسی سے، اپنے آپ کو الگ کر رہی ہے۔
امریکی دفترِ خارجہ کے سابق معاون وزیر خارجہ، کارل اِنڈر فرتھ اورجان ہاپکنز یونیورسٹی میں سکول اوف ایڈوانس انٹرنیشل سٹڈیز کے ڈائیریکٹر ،والٹر اینڈرسن کا کہنا ہے کہ افغانستان کیلئے نئی مجوزہ حکمت عملی میں امریکی افواج کیلئے متعدد چیلنج ہوں گے جبکہ اُنہیں کارروائیوں کیلئے زیادہ آزادی اور اختیارات دیئے جائیں گے، اور اس کے ساتھ ساتھ سیاسی مذاكرات کو بھی تقویت دی جائے گی۔ تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ابھی تک یہ ایک تجویز کردہ حکمت عملی ہے، اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اِسے منظور نہیں کیا۔
نئی مجوزہ حکمت عملی میں، افغانستان میں موجود تقریباً 8400 امریکی فوج میں کم از کم 3000 کا اضافہ کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ نیٹو ممالک متوقع طور پر اِسی تناسب سے فوجی تعینات کریں گے۔ حکمت عملی کی اِس اہم مجوزہ تبدیلی کے بارے میں، میڈیا میں بحث چھڑی ہوئی ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ ٹرمپ کے اعلیٰ ترین فوجی اور خارجہ امور کے مشیروں نے غور و خوض کے بعد یہ تبدیلیاں تجویز کی ہیں۔ میڈیا رپورٹوں کے مطابق، 25 مئی کو برسلز میں نیٹو کے سربراہ اجلاس میں شرکت سے قبل، صدر ٹرمپ اِس حکمت عملی کو حتمی شکل دیں گے۔
دفترِ خارجہ کے سابق معاون وزیر خارجہ، کارل انڈر فرتھ کا کہنا تھا کہ پرانی پالیسی کے مقابلے میں تبدیلی یہ آئی ہے کہ زیادہ امریکی فوجی وہاں بھیجے جا رہے ہیں، امریکی افواج کا کردار جو کہ صرف مشاورت تک محدود تھا، اب شاید کارروائیاں کرنے کی بھی اجازت ہوگی، اور وہ بھی زیادہ خود مختاری کے ساتھ۔
انہوں نے کہا کہ یوں لگتا ہے کہ صدر ٹرمپ کی صدارت میں عسکری کارروائیوں کے لیے فوج کو مزید خود مختاری دی جائے گی، جس میں طالبان کے ٹھکانوں پر فضائی کارروائیوں کیلئے زیادہ اختیارات بھی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ دیگر اقدامات بھی ہونگے جن میں فوج کو افغان افواج کی فضائی امداد فراہم کرنے کی بھی اجازت ہو گی۔
جان ہاپکنز یونیورسٹی میں سکول آف ایڈوانس انٹرنیشنل سٹڈیز کے ڈائریکٹر، والٹر اینڈرسن کا کہنا تھا کہ اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ امریکی افواج، اب کارروائیوں میں شامل ہونگی۔ وہ کبھی کبھار تو کارروائیوں میں شاید حصہ لیتے ہیں۔ لیکن ان کی وہاں موجودگی کا بنیادی مقصد، تربیت اور تنصیبات کو تحفظ فراہم کرنا ہے۔ لیکن اب لگتا ہے کہ وہ جنگ میں شامل ہونگے، اور حقیقی جھڑپوں میں شرکت کریں گے۔
اس سوال پر کہ کیا یہ نئی حکمت عملی موثر ثابت ہو گی۔ کارل انڈر فرتھ کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے انہیں شک ہے، کیونکہ اس سے پہلے امریکی اور نیٹو افواج کی خاطر خواہ تعداد وہاں موجود تھی لیکن مشن مکمل نہیں ہوا۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر امریکہ ایک لاکھ فوجیوں کے ساتھ یہ نہیں کر سکا، اور اس کے ساتھ نیٹو کی افواج بھی شامل تھیں، تو پھر میرے لئے یہ تسلیم کرنا مشکل ہے کہ وہ تقریباً 12 ہزار فوجیوں کے ساتھ یہ کر پائیں گے۔ اس لئے مجھے شک ہے کہ وہ تعطل کو برقرار رکھ سکنے کے علاوہ کچھ کر سکیں۔
والٹر اینڈرسن کا کہنا تھا کہ وہ اس بارے میں کچھ بھی حتمی طور پر نہیں کہہ سکتے۔ لیکن یہ ایک امتحان ہو گا۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کے خیال میں یہ ایک چیلنج ہو گا۔ طالبان کے حملوں میں شدت اور زیادہ عزم آیا ہے۔ لیکن اس کا دار و مدار چند باتوں پر ہے۔ ایک تو یہ کہ افغان افواج کی صلاحیتوں میں اضافہ کیا جائے، اور کچھ رپورٹوں کے مطابق وہ واقعی زیادہ با اثر ہو رہی ہیں، اور اس کے ساتھ پاکستان میں موجود محفوظ ٹھکانے بند کئے جائیں۔
اس سوال پر کہ کیا نئی انتظامیہ، اوباما انتظامیہ کی پاکستان اور افغانستان کیلئے تشکیل دی گئی ایف پاک نامی مشترکہ پالیسی میں تبدیلی لا رہی ہے، کارل انڈر فرتھ کا کہنا تھا کہ ایف پاک پالیسی کے خالق، رچرڈ ہال بروک کے انتقال کے ساتھ ہی یہ پالیسی بھی تحليل ہوتی چلی گئی۔ انہوں نے کہا کہ نئی انتظامیہ واضح طور پر اُس پالیسی پر عمل پیرا نہیں ہوگی۔ اور نہ ہی اوباما انتظامیہ مسٹر ہالبروک کے انتقال کے بعد اس پر عمل پیرا رہی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ اب جنوبی ایشیائی خطے کے کیلئے ایک نیا بیورو شکیل دیا جائے گا۔ ایسا ہی ایک بیورو پہلے موجود تھا جس کی میں نے قیادت کی تھی ۔ کارل انڈر فرتھ کا کہنا تھا کہ ان کی سمجھ کے مطابق اب پاکستان اور افغانستان کے لیے خصوصي ایلچی کا منصب ختم کر دیا جائے گا، اور اب پاکستان اور افغانستان کی ذمہ داریاں بیورو آف ساؤتھ ایشیا کو تفویض کی جائیں گی۔
والٹر اینڈرسن بھی ایف پاک پالیسی پر کارل انڈر فرتھ سےمتفق تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ اُن کے خیال میں امریکہ اُس مشترکہ پالیسی سے کچھ عرصے سے ہٹ چکا ہے۔ گو کہ اِن کی کڑیاں تو آپس میں ظاہر ہے کے ملیں گی، لیکن وہ بظاہر افغان مسئلے کو افغان مسئلے کے طور پر ہی دیکھیں گے۔
دونوں تجزیہ کار وں کا اس بات پر اصرار تھا کہ اس نئی حکمت عملی میں پاکستان کا ذکر نہیں ہے، اور جب تک اس میں پاکستان کا ذکر نہیں ہو گا، تو اس وقت تک یہ ایک ٹھوس شکل اختیار نہیں کر گی۔