پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں بہتری کا کس قدر امکان ہے؟ اس بارے میں بات کرتے ہوئے امریکہ کیلئے پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی کہتے ہیں کہ اگر امریکہ کو افغانستان میں اپنی فوجی قوت میں اضافہ کرنا پڑا تو وہ ایسا کرے گا۔ ان کے بقول، ’’یہاں امریکہ میں پاکستان پر پابندیاں لگانے اور سخت رویہ اپنانے کی باتیں بھی ہو رہی ہیں‘‘۔
عراق اور افغانستان کیلئے امریکہ کے سابق سفیر، زلمے خلیل زاد کہتے ہیں کہ نیٹو کا اجلاس قریب آ رہا ہے اور افغانستان میں نیٹو افواج موجود ہیں۔ اس وجہ سے ٹرمپ ’’انتطامیہ افغانستان کے لئے جلد ہی کوئی حکمت عملی تشکیل دینے کے لئے دباؤ‘‘ میں ہے۔
سابق امریکی سفیر رابن رافیل کہتی ہیں کہ امریکہ افغان تنازعے کا حصہ ہے اور کسی حد تک یہ اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ تمام فریقوں کو مذاکرات کی میز پر لائے۔
پاکستان اور افغانستان کے حوالے سے امریکہ کی نئی پالیسی کے خد و خال پر ماہرین یہ بات چیت واشنگٹن کے ایک تھنک ٹینک ’ہڈسن انسٹی ٹیوٹ‘ میں کر رہے تھے۔
امریکہ کیلئے پاکستان کے سابق سفیر، حسین حقانی کا کہنا تھا کہ اس وقت پاکستان اور افغانستان کے تعلقات دو اچھے پڑوسیوں جیسے نہیں ہیں۔ افغانستان کو شکایت ہے کہ پاکستان اب تک مسلسل افغان طالبان اور حقانی نیٹ ورک کی حمایت کر رہا ہے۔ پاکستان کو شکایت ہے کہ پاکستان سے فرار ہونے والے بہت سے انتہا پسند افغانستان میں پناہ حاصل کئے ہوئے ہیں۔
حسین حقانی کا کہنا تھا کہ دونوں ممالک اپنی شکایات پر اصرار اور دوسرے کی شکایت کی حقیقت سے انکار کرتے ہیں۔ اس صورتحال میں مذاکرات اور بات چیت کو آگے بڑھانا ممکن نہیں ہوتا۔
اس سوال پر کہ امریکہ صورتحال کو سلجھانے میں کیا کردار ادا کرسکتا ہے؟حسین حقانی کا کہنا تھا کہ امریکہ نے بظاہر تو یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ وہ افغانستان کو مستحکم کرنے کیلئے طاقت کے استعمال میں مزید اضافہ کرے گا، اور اگر اسے وہاں اپنی فوجی قوت میں اضافہ اور افغان حکومت کو مستحکم کرنے کیلئے امداد بڑھانی پڑی، تو وہ یہ بھی کرے گا۔
حسین حقانی کے بقول، فیصلہ پاکستان کو کرنا ہے کہ کیا اسے اب بھی سن اسی اور نوے کی دہائی کی سوچ رکھنی ہے کہ ’’کیسے پاکستان سے کسی کو بھیج کر افغانستان میں حکومت کروائے، یا یہ کوشش کی جائے کہ کابُل میں موجود حکومت کے ساتھ بہتر تعلقات قائم کر لئے جائیں‘‘۔
عراق اور افغانستان کیلئے امریکہ کے سابق سفیر، زلمے خلیل زاد کا خیال تھا کہ امریکی انتظامیہ کوئی نیا منصوبہ تشکیل دینے میں لگی ہوئی ہے۔ اس حکمت عملی کے تحت، امریکہ کو پاکستان کے ساتھ تعلقات پر ازسرِ نو غور کرنا ہوگا اور یہ سوچنا ہوگا کہ پاکستان اور افغانستان کے تعلقات کو آگے بڑھانے کیلئے کیا کرنا چاہئیے۔ زلمے خلیل زاد کے بقول، اس سلسلے میں شاید پاکستان پر مزید دباؤ بڑھانے کی ضرورت ہوگی، اور ہو سکتا ہے کہ اس میں دونوں فریق کے ساتھ سفارتی سطح پر مزید بات چیت کرنی پڑے، جس میں عسکری اور معاشی سطح پر بھی مزید کوششیں تیز کرنے کی ضرورت ہو۔
انہوں نے کہا کہ اب تک ان دونوں ممالک کو قریب لانے کیلئے امریکہ کی کوششیں زیادہ موثر ثابت نہیں ہوئیں۔ لہذا، ان کوششوں کا متبادل تلاش کرنا اہم ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ نئی امریکی انتطامیہ کی توجہ اسی بات پر مرکوز ہے۔ان کے بقول، امریکی قومی سلامتی کے مشیر جنرل مک ماسٹر کا افغانستان اور پاکستان اور بھارت کا دورہ بھی اسی حکمتِ عملی کا حصہ ہے۔
ان کے نزدیک امریکہ کو غور و خوض کے بعد، ایک سٹریٹیجی اپنانا ہوگی، اور انتظامیہ کو پورا وقت لیکر اس حکمت عملی کو مرتب کرنا ہوگا۔ لیکن، ساتھ ہی ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ موجودہ انتطامیہ، جلد ہی کوئی حکمت عملی تشکیل دینے کیلئے دباؤ میں ہے، کیونکہ نیٹو کا اجلاس قریب آ رہا ہے اور افغانستان میں نیٹو افواج موجود ہیں۔
جنوب اور وسطی ایشیائی امور کیلئے امریکہ کی سابق نائب وزیر خارجہ اور سابق سفیر رابن رافیل کا کہنا تھا کہ پاکستان اور افغانستان میں امن اور خوشحالی کیلئے ضروری ہے کہ ان کے درمیان تعاون پر مبنی تعلقات ہوں۔
افغانستان کی صورتحال آئیندہ کیا رُخ اختیار کرے گی، رابن رافیل کے بقول، پاکستان اس بارے میں ’’بے یقینی کا شکار ہے اور اسی وجہ سے ماضی کی طرح، پاکستان کی افغان پالیسی میں بے یقینی اور نقصان سے بچنے کی کیفیت پائی جاتی ہے؛ جس پر قابو پانے کی ضرورت ہے۔ اور ایسا افغان حکومت، طالبان اور اُن کے حامیوں کے ساتھ مذاکراتی عمل سے ہوگا، تاکہ کسی دیرپا سیاسی حل تک پہنچا جا سکے اور اس سے پاکستان اور افغانستان کے درمیان بہتر تعلقات کی بنیاد قائم ہوگی۔
اس سوال پر کہ کیا امریکہ کا تعلقات کو بہتر بنانے میں کوئی کردار ہے، رابن رافیل کا کہنا تھا کہ ’’کسی بھی سیاسی حل کیلئے، اس میں شامل تمام فریقین کی حمایت حاصل کرنا‘‘ ضروری ہے۔ اور چونکہ افغانستان میں امریکہ کی افواج کافی عرصے سے موجود ہیں۔ اسلئے امریکہ اس تنازعے کا حصہ بن چکا ہے۔ اس لئے’’میرے خیال میں ایک سطح پر یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم تمام فریقوں کو مذاکرات کی میز پر لائیں‘‘۔
انہوں نے کہا کہ جتنی جلد امریکہ اپنے کردار اور پالیسی کو واضح کرے گا اتنی ہی جلد وہ اس پوزیشن میں ہوگا کہ وہ کھلے اور واضح انداز میں پاکستان سے ایک پر امن اور خوشحال افغانستان کے قیام کے لئے آگے بڑھنے اور اپنا کردار ادا کرنے پر بات کر سکے، جو سرحدوں کی دونوں جانب تعاون پر مبنی ہو۔