خلا میں گردش کرنے والی دو طاقت ور دوربینوں نے 29 ستمبر کو اس راکٹ کی ابتدائی تصویریں بھیجی ہیں جو تین روز پہلے ایک شہابیے سے ٹکرا کر تباہ ہو گیا تھا۔سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اس ٹکر کے نتائج اس سے کہیں زیادہ حوصلہ افزا ہیں جتنا اس سے پہلے سوچا جا رہا تھا۔
تباہ ہونے والے راکٹ’ ڈارٹ‘ کی تیاری پر کئی سال اور 33 کروڑ ڈالر صرف ہوئے تھے اور اسے دس ماہ قبل خلا میں بھیجا گیا تھا۔
ڈارٹ جس شہابیے سے ٹکرایا، اس کا نام ’ڈیموفوس‘ ہے۔ اس کا حجم تقریباً فٹ بال کے میدان کے لگ بھگ ہےاور وہ زمین سے 68 لاکھ میل کی دوری پر گردش کر رہا ہے۔
ڈیموفوس خلا میں گردش کرنے والا واحد شہابیہ نہیں ہے۔ فلکیات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ صرف ہمارے نظام شمسی میں ہی لاتعداد چھوٹے بڑے شہابیے گردش کر رہے ہیں، جن میں سے کچھ کے مخصوص مدار ہیں اور کچھ بھٹکے ہوئے بے سمت شہابیے ہیں جو اکثر اوقات کسی سیارے سے ٹکرا کر تباہ ہو جاتے ہیں۔
ستارے کیوں ٹوٹتے ہیں؟
شاید یہ آپ کے علم میں ہو کہ روزانہ لاتعداد شہابیے ہماری زمین سے ٹکرانے کے لیے لپکتے ہیں، لیکن زمین کا فضائی کرہ ہمیں ان سے محفوظ رکھتا ہے اور وہ ہوا کی رگڑ سے جل کر راستے میں ہی راکھ ہو جاتے ہیں۔ آپ ان کے جلنے کا منظر کسی بھی ستاروں بھری رات کو کھلے آسمان پر اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتے ہیں۔
آپ نے ستارہ ٹوٹنے کی بات تو اکثر سنی ہو گی اور شاید یہ مشاہدہ بھی کیا ہو کہ رات کی تاریکی میں آسمان پر اچانک ایک چمکتا ہوا ستارہ نمودار ہوتا ہے اور لمبی روشن لکیر چھوڑتا ہوا غائب ہو جاتا ہے۔ یہ اصل میں زمین کے فضائی کرے میں داخل ہونے والا کوئی بھٹکا ہوا شہابیہ ہوتا ہے۔
اگر زمین کی جانب بڑھنے والے شہابیے کا حجم بہت بڑا ہو تو وہ ہوا کی رگڑ سے مکمل طور پر تباہ نہیں ہو پاتا اور اس کا کچھ حصہ زمین سے ٹکرا جاتا ہے۔ ہماری زمین پر ایسے کئی واقعات پیش آچکے ہیں ۔ یہ شہابیے جہاں ٹکرائے تھے، وہاں گڑھے اب بھی موجود ہیں۔ یہاں کچھ جھیلں ایسی ہیں جو شہابیوں کے ٹکرانے سے پیدا ہوئی ہیں۔
ایک شہابیے نے دنیا سے ڈائنوسارکا وجود ہی مٹا دیا
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ کروڑوں سال پہلے جب کرۂ ارض پر چھوٹے بڑے ڈائنو ساروں کا راج تھا، تو ایک بہت بڑا شہابیہ زمین سے ٹکرایا تھا،جس کے نتیجے میں اتنی تباہی ہوئی کہ ڈائنوسار کی نسل ہی ختم ہو گئی۔
سائنس دانوں کا قیاس ہے کہ اس خوفناک تصادم میں زمین پر موجود نباتات اور حیات کی ایک چوتھائی اقسام معدوم ہو گئی تھیں۔ زمین پر یہ قیامت تقریباً ساڑھے چھ کروڑ سال پہلے ٹوٹی تھی۔
سائنس دانوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ خدشہ بدستور موجود ہے کہ کبھی بھی، کسی وقت کوئی بہت بڑا شہابیہ زمین سے ٹکرا کر سب کچھ ملیا میٹ کر سکتا ہےجس سے ممکن ہے کہ زمین سے ہر نوع کی حیات ہی ختم ہو جائے۔
خلائی بلاؤں کے مقابلے کی تیاری
انسان نے خود کو زمین پر موجود خطرات سے بچانے کے لیے تو ہر طرح کے ہتھیار تیار کر لیے ہیں، لیکن خلا سے ہونے والے شہابیوں کے حملوں کے مقابلے کے لیے ابھی تک کچھ نہیں کیا۔
لیکن اب کچھ عرصے سے ماہرین خلاسے آنے والی 'بلاؤں' کو راستے میں ہی روکنے کے طریقے ڈھونڈ نے کی کوشش کر رہے ہیں۔ دس ماہ قبل لانچ کیا جانے والا راکٹ 'ڈارٹ' اسی تجرباتی مہم کا ایک حصہ تھا۔
ناسا کے راکٹ کا خودکش مشن
ڈارٹ کی ڈیموفوس نامی شہابیے سے ٹکر اتفاقیہ نہیں تھی بلکہ یہ ایک سوچا سمجھا منصوبہ تھا۔ فلکیات کے ماہرین کہتے ہیں کہ ڈارٹ ایک خودکش مشن پر تھا جس نے اس تجربے کے لیے ڈیموفوس سے ٹکرا کر اپنی قربانی دی۔
ڈارٹ ایک چھوٹے سائز کا راکٹ یا خلا میں سفر کرتی ہوئی ایک انتہائی تیز رفتار سائنسی مشین تھی۔ جس پر کئی آلات نصب تھے اور وہ زمینی مرکز کو مسلسل معلومات بھیج رہی تھی۔ اپنے ہدف ڈیموفوس کو تلاش کر کے ٹکرانے سے قبل اس نے خلا میں ایک چھوٹا سیٹیلائٹ چھوڑا تاکہ وہ اس ٹکراؤ کی تفصیلات زمینی مرکز کو بھیج سکے ۔ 25 ہزار میل فی گھنٹہ سے بھی زیادہ رفتار سے جب ڈارٹ شہابیے سے ٹکرایا تو اس وقت سیٹیلائٹ محض 50 کلومیٹر کی دوری پر تھا۔ اس نے اس تصادم اور اس کے بعد کی صورت حال سے متعلق سائنسی معلومات زمینی مرکز کو فراہم کیں۔
راکٹ اور شہابیے کی ٹکر پر مبارک بادیں
26 ستمبر کو ڈیموفوس سے ٹکرانے کا مشاہدہ سائنس دانوں نے خلائی مرکز کے کنٹرول روم میں بڑی اسکرینوں پر براہ راست کیا، کیوں کہ ڈارٹ کے کیمرے ہر لمحے کی تصویریں مسلسل بھیج رہے تھے۔ کنٹرول روم کی اسکرینوں پر ڈیموفوس پہلے ایک سیاہ نقطے کی طرح نمودار ہوا، پھر وہ بڑا ہوتا چلا گیا، حتی ٰکہ پوری سکرین سیاہ ہو کر ساکت ہو گئی، جو اس بات کی علامت تھی کہ خلائی مشین ڈارٹ اپنا خودکش مشن مکمل کر کے تباہ ہو گئی ہے۔ اس کے بعد کی ذمہ داری قریب ہی گردش کرنے والے سیٹلائٹ نے سنبھال لی۔
ڈارٹ کے ڈیموفوس سے ٹکرانے پر کنڑول روم میں موجود سائنس دانوں نے کھڑے ہو کر خوشی سے تالیاں بجائیں اور ایک دوسرے کو مبارک باد دی۔ یہ زمین سے باہر کسی حملہ آور کو روکنے کا پہلا تجربہ تھا۔
ڈارٹ کا سائز ایک عام فریج کے مساوی تھا جب کہ ڈیموفوس کا قطر 560 فٹ ہے۔ اس تجربے سے سائنس دان یہ بھی جاننا چاہتے تھے کہ خلا میں تصادم کے وقت حجم اور رفتار کے اثرات کیا ہوتے ہیں۔
ٹکراؤ کے بعد سائنس دانوں نے کہا تھا کہ اس تجربے کی کامیابی کا تعین خلا میں گردش کرنے والی دوربینوں اور دیگر ِآلات سے ڈیٹا حاصل ہونے کے بعد ہو سکے گا جس پر کئی ہفتے لگ سکتے ہیں۔
تاہم اب ماہرین فلکیات کو خلائی دور بین جیمز ویب اور ہبل سے تصاویر ملنا شروع ہو گئی ہیں۔ ان کے کیمروں کو خاص طور پر اس تصادم پر مرکوز کر دیا گیا تھا۔
تصادم کے نتائج توقع سے زیادہ حوصلہ افزا
دنیا بھرکے کئی خلائی زمینی مراکز اس تصادم سے حاصل ہونے والے ڈیٹا کا تجزیہ کر رہے ہیں۔ یورپی خلائی ایجنسی کے ایک ماہر ایان کارنیلی کا کہنا ہے کہ ابتدائی نتائج ہماری توقعات سے کہیں بڑھ کر ہیں۔ تصادم کے مقام پر سے گردو غبار کے بادل بلند ہوتے ہوئے دیکھے گئے جو خلا میں بہت دور تک پھیل گئے۔ یہ جاننے میں کچھ ہفتے لگ سکتے ہیں کہ ٹکراؤ کے نتیجے میں ڈیموفوس کے مدار میں کتنی تبدیلی آئی ہے۔ یہی اس تجربے کا بنیادی ہدف ہے۔
چند سال پہلے تک سائنس دانوں کا خیال تھا کہ زمین کی جانب بڑھنے والے کسی بڑے شہابیے کو روکنے کے لیے جوہری بم داغنے کی ضرورت ہو گی، لیکن اس کے ساتھ کئی خدشات بھی منسلک تھے۔
بعد ازاں کچھ سائنس دانوں نے یہ نظریہ پیش کیا کہ زمین کی طرف بڑھنے والے بڑے شہابیے یا خلائی چٹان کا رخ کسی تیز رفتار راکٹ کو اس سے ٹکرا کر موڑا جا سکتا ہے۔حالیہ تجربہ اس نظریے کو جانچنے کے لیے کیا گیا ہے۔
کارنیلی کہتے ہیں کہ خلائی دوربین جمیز ویب سے حاصل کیے جانے والے ڈیٹا سے یہ ابتدائی اندازہ لگانے میں ایک ہفتہ لگے گا کہ ڈیموفوس کے مدار میں کتنی تبدیلی ہوئی جب کہ درست نتائج کے لیے ڈیٹا کی جانچ پڑتال میں تین سے چار ہفتے تک لگ سکتے ہیں۔
اس خبر میں شامل بعض معلومات خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' سے لی گئی ہیں۔