ایون فیلڈ ریفرنس میں مریم نواز اور کیپٹن (ر ) صفدر کی سزائیں کالعدم ہونے کے بعد سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کے بھی جلد وطن واپس آکر عدالت سے اپنی بریت اور سزا کے خاتمے کے لیے رابطے کا امکان ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے بریت کے حکم نامے کے بعد مریم نواز کی نااہلی بھی ختم ہو گئی ہے اور اب وہ سیاست میں حصہ لے سکتی ہیں۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ موجودہ حالات میں پاکستان مسلم لیگ(ن) کے لیے حالات سازگار ہیں اور اگر نوازشریف وطن واپس آکر عدالتوں کا رخ کرتے ہیں تو انہیں بھی ریلیف مل سکتا ہے۔البتہ بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ تمام معاملات سیاسی انجینئرنگ اور سیاسی بارگین کا نتیجہ ہیں۔
تجزیہ کار سلیم بخاری کہتے ہیں اس وقت سیاست کا ایک نیا فیز شروع ہوا ہے جس میں اسحاق ڈار وطن واپس آئے۔ان کے دائمی وارنٹ گرفتاری معطل ہوئے۔ اس کے بعد انہوں نے سینیٹر کا حلف اٹھایا اور اب وہ ملک کے وزیرِ خزانہ بن چکے ہیں۔ان کے بقول ایون فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ پاکستان میں سیاسی کیسز کا نیا موڑ ثابت ہوا جسے اسلام آباد ہائی کورٹ نے ختم کر دیا۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد نظر آرہا ہے کہ نواز شریف بھی جلد پاکستان آئیں گے اور ان کی سزا بھی کالعدم ہو سکتی ہے کیوں کہ ایون فیلڈ ریفرنس کے فیصلے کے بعد اب نواز شریف کی سزا کا کوئی جواز باقی نہیں رہا۔
واضح رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن اختر کیانی پر مشتمل دو رکنی بینچ نے جمعرات کو ایون فیلڈ ریفرنس کیس میں سزا کے خلاف مریم نواز اور کپیٹن (ر) صفدر کی اپیلوں کو منظور کیا تھا اور قرار دیا تھا کہ قومی احتساب بیورو (نیب) اپنا مؤقف ثابت کرنے میں ناکام رہا۔
نیب کا مؤقف تھا کہ لندن میں موجود شریف خاندان کی جائیدادوں کی بینیفشل اونر مریم نواز ہیں۔
چار سال تک چلنے والے اس کیس کے دوران سابق وزیراعظم نواز شریف کی عدم حاضری کی وجہ سے انہیں اس کیس سے الگ کرکے اشتہاری قرار دیا گیا تھا لیکن اس میں مریم نواز اور کیپٹن صفدر کے خلاف کیس لگاتار چل رہا تھا۔
اس کیس کی آخری دو سماعتوں میں عدالت نے ایون فیلڈ کی جائیداد میں نواشریف کی ملکیت کے حوالے سے سوال اٹھایااور کہا کہ جائیدادیں اگر کمپنیوں کے نام ہیں تو ان کا نواز شریف سے لنک ثابت کریں اور پھر مریم نواز اگر بینیفشل اونر ہیں تو اس کا بھی ثبوت دیا جائے لیکن نیب کے وکلا یہ ثابت کرنے میں ناکام رہے جس کے بعد عدالت نے مریم نواز اور کیپٹن صفدر کو اس کیس سے باعزت بری کرنے کا حکم دیا۔
نئی سیاسی انجینئرنگ یا نئی سیاسی بارگین؟
سیاسی تجزیہ کاراور کالم نگار سلمان عابد کہتے ہیں کہ اس وقت ملک میں سیاسی سرکس لگا ہوا ہے جس میں سیاسی معاملات کو عدالتی اور عدالتی معاملات کو سیاسی بنایا جا رہا ہے۔ چاہے عدلیہ ہو ، اسٹیبلشمنٹ یا پھر سیاسی جماعتیں، ان کے کردار سے نظر آرہا ہے کہ ریاستی بحران بڑھ رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ مریم نواز بری ہوئیں تو سوچا جانا چاہیے کہ ان کے خلاف کیس کس نےبنائے تھے؟ نواز شریف کے خلاف کیس ختم ہونے جارہے ہیں۔ اسحاق ڈار لندن سے وطن واپس آچکے ہیں۔ اس تمام تر صورتِ حال سے لگتا ہے کہ نئی سیاسی انجینئرنگ ہورہی ہے جو کسی کے حق میں اور کسی کے خلاف ہو سکتی ہے۔
اُن کے بقول، "سیاسی انجینئرنگ کرنے والے کے نزدیک ایسا کرنے سے پاکستان کی جمہوریت کو کوئی فائدہ پہنچ سکتا ہے لیکن میرے خیال میں اس سے کوئی فائدہ نہیں بلکہ نقصان ہی ہوگا۔"
سلمان عابد کا کہنا تھا اگر کوئی سمجھتا ہے کہ اسحاق ڈار اور مریم نواز کا معاملہ عدالتوں نے حل کیا ہے اور بغیر کسی ڈیل کے ہوا ہے تو وہ احمقوں کی جنت میں رہتا ہے۔ ان کے بقول اسٹیبلشمنٹ اس وقت زیادہ پراثر نظر آرہی ہےاور سب کو پتا ہے کہ فیصلے کہاں پر ہورہے ہیں اور کون معاملات کو کنٹرول کررہا ہے۔
عمران خان کا ردِعمل کیا ہوسکتا ہے؟
ایون فیلڈ ریفرنس کے فیصلے پر عمران خان کی جانب کس طرح کا ردِ عمل ممکن ہے؟ اس سوال پر سلمان عابد نے کہا کہ جس طرح کے فیصلے آرہے ہیں ان پر عمران خان کا ردعمل بھی سامنے آئے گا لیکن عمران خان کے خلاف مقدمات بھی عدالتوں میں زیرِ سماعت ہیں جن میں انہیں نااہل کرنے کی بات کی جارہی ہے۔
ان کے بقول ایسے ماحول میں عمران خان کا ردعمل بھی بہت اہم ہے کہ وہ اس تمام صورتِ حال کو کیسے دیکھتے ہیں۔اگر نواز شریف اور اسحاق ڈار کے لیے راستہ نکلا ہے تو لگتا ہے کہ عمران خان کے لیے بھی نیا راستہ نکالا جارہا ہے۔
سلمان عابد کے مطابق مسلم لیگ (ن) کے رہنما خواجہ سعد رفیق نے کچھ عرصہ قبل کہا تھا کہ تمام سیاسی جماعتوں کے لیے ایک جیسی لیول پلئینگ فیلڈ ہونی چاہیے۔ ان کے خیال میں اب ایسا ہی کیا جا رہا ہے اور جس طرح کے فیصلے آرہے ہیں اس سے لگتا ہے کہ عدل وانصاف نہیں بلکہ سیاسی انجینئرنگ اور سیاسی بارگینگ ہورہی ہے۔
عمران خان کی جانب سے حکومت کے خلاف ممکنہ احتجاجی کال دینے سے متعلق سوال پر تجزیہ کار سلیم بخاری کا کہنا ہے کہ عمران خان کا فیز ختم ہوچکا ہے جس میں انہوں نے اپنی حکومت کے خاتمے کے پس پردہ ایک عالمی سازش کا بیانیہ بنا کر خود کو مظلوم پیش کیا۔ ان کے بقول حالیہ دنوں میں سامنے آنے والی آڈیو لیکس میں عمران خان کا بیانیہ کھل کر سامنے آگیا ہے اوران لیکس کے بعد تحریکِ انصاف کا بیانیہ دفن ہوچکا ہے۔
انہوں نے کہا کہ عمران خان سمجھتے ہیں کہ اگر جلد انتخابات ہوئے تو وہ اپنی مقبولیت کو استعمال کرتے ہوئے کلین سوئپ کرلیں گے اور دوبارہ وزیرِ اعظم بن جائیں گے۔ لیکن موجودہ حکومت ان حالات میں الیکشن کرانے کے لیے کسی طور تیار نہیں کیوں کہ معاشی طور پر مشکل ترین فیز سے حکومت نکل چکی ہے۔
تجزیہ کار سلمان عابد کا بھی خیال ہے کہ جو حلقے قبل از وقت انتخابات کے لیے حکومت پر دباؤ ڈال سکتے تھے وہ نیوٹرل ہوچکے ہیں اور اب وہ سیاست میں مداخلت نہیں کریں گے۔ لہذا عمران خان چاہتے ہیں کہ ان سے جو مرضی منوا لیا جائے اور جلد الیکشن کرائے جائیں تاکہ وہ اپنی مقبولیت کو کیش کروا سکیں لیکن اب ایسا ہوتا نظر نہیں آرہا۔
نئے آرمی چیف کی تعیناتی پر مشاورت کے لیے عمران خان کا دباؤ
نئے آرمی چیف کی تعیناتی میں عمران خان کے کسی کردار کے سوال پر سلیم بخاری نے کہا کہ چیئرمین تحریکِ انصاف سمجھتے ہیں کہ وہ حکومت پر دباؤ ڈال کر اپنی مرضی کا آرمی چیف لاسکیں گے لیکن حقیقت میں حکومت نے فیصلہ کررکھا ہے کہ یہ وزیراعظم کی صوابدید ہے کہ وہ جسے بہتر سمجھیں اسے آرمی چیف مقرر کریں۔ لہذا حکومت اس حق کو استعمال کرے گی اور اس میں کسی کو شریک نہیں کرے گی۔
لیکن سلمان عابد کہتے ہیں نئے آرمی چیف کی تقرری کا معاملہ بھی اہم ہے اور سب اسٹیبلشمنٹ کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ ان کے بقول عمران خان بھی لانگ مارچ کے لیے وہیں دیکھ رہے ہیں اور یہ تمام تر صورتِ حال سیاسی بحران نہیں بلکہ ریاستی بحران ہے۔
ان کے بقول، " تمام معاملات ڈیل کے ذریعے ہورہے ہیں جس سے نئی سیاسی محاز آرائی ہوگی اور اس کے دوران اداروں سے ٹکراؤ کا بھی خدشہ موجود ہے۔ اگر صورتِ حال جوں کی توں رہی تو مزید حالات بگڑ سکتے ہیں۔
سلیم بخاری کے خیال میں عمران خان فوج کے کاندھوں پر بیٹھ کر اقتدار میں آئے اگر وہ ایسا نہ کرتی تو عمران خان کبھی وزیراعظم نہیں بن سکتے تھے۔ ان کے بقول جب فوج نے اپنی حمایت واپس لی تو عمران خان نے انہیں میر جعفر اور جانور تک کہہ دیا۔ اب اسٹیبلشمنٹ میں موجود چند ایک عناصر ان کی حمایت کررہے ہیں لیکن عمران خان مین اسٹریم اسٹیبلشمنٹ کی حمایت حاصل کرسکتے ہیں یا نہیں، یہ آنے والے دنوں میں پتا چلے گا۔
'پاکستان کی سیاست بدل چکی'
سینئر صحافی حامد میر کا کہنا ہے کہ انہیں ایک سال کے دوران انتخابات ہوتے نظر نہیں آ رہے اور حالیہ سیلاب کے بعد زمینی حقائق یکسر بدل چکے ہیں۔ ان کے بقول جب سیاست دان سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں جائیں گے تو انہیں احساس ہوگا ۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ عمران خان کی سوچ ہے کہ وہ مقبول لیڈر ہیں لیکن وہ صرف بڑے شہروں میں مقبول ہیں اور وہیں جلسے کررہے ہیں جہاں سیلاب نہیں آیا۔
حامد میر نے کہا کہ سیلاب میں ایک تہائی نہیں بلکہ آدھے سے زائد پاکستان ڈوبا ہے، اس وقت کوئی سیاست دان اہمیت نہیں رکھتا اور سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں ان کی سیاست ختم ہوچکی ہے۔
ان کے بقول سندھ میں 'زندہ ہے بھٹو زندہ ہے' والی بات ختم ہوگئی، بلاول بھٹو کا پوچھ لیں آپ کو حقیقت کا علم ہوجائے گا۔ عمران خان روجھان مزاری یا نوشہرہ کینٹ کے علاقے میں جا کر دیکھ لیں کہ وہاں وہ کتنے مقبول ہیں۔ اسی طرح مریم نواز راجن پور میں جام پور گئیں جہاں سیلاب سے کوئی مسئلہ نہیں تھا وہاں بھی وہ چار بندوں کے سامنے تقریر کرکے آگئیں۔