رضیہ بی بی ایک گھریلو خاتون ہیں۔ وہ ہر ہفتے جب پورے خاندان کے لئے سودا سلف خریدنے بازار جاتی ہیں تو اُن کی خواہش ہوتی ہے کہ تمام چیزیں الگ الگ پلاسٹک کے تھیلوں میں ڈالی جائیں تاکہ اُنہیں گاڑی میں رکھنا آسان ہو۔
اس ہفتے جب وہ سودا خرید کر گھر پہنچیں اور تمام سامان تھیلوں سے باہر نکالا تو پلاسٹک کے تھیلوں کا ڈھیر لگ گیا۔ جانے اُنہیں کیا خیال آیا۔ اُنہوں نے ان تھیلوں کو گننا شروع کر دیا اور پھر گنتی کے بعد تھیلوں کی کل تعداد 36 نکلی تو وہ دنگ رہ گئیں۔
رضیہ بی بی سے رہا نہ گیا اور اُنہوں نے فوراً انٹرنیٹ پر سرچ کرنا شروع کر دیا۔تحقیق سے اُنہیں معلوم ہوا کہ پلاسٹک کے تھیلے تحلیل ہونے کئی سو برس لگتے ہیں اور تحلیل شدہ شکل میں بھی وہ ماحول کو بگاڑنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ انہیں ختم کرنا ممکن نہیں ہوتا۔
رضیہ بی بی نے اُسی دن یہ عہد کر لیا کہ وہ خریداری کے وقت پلاسٹک کے تھیلے ہر گز استعمال نہیں کریں گی۔
سائنس دان طویل عرصے سے اس بارے میں تحقیق کرتے آئے ہیں کہ پلاسٹک کے استعمال شدہ تھیلوں کو کیسے ختم کیا جائے۔ اس سلسلے میں حال ہی میں امریکہ اور برطانیہ کے سائنس دانوں نے ایک ایسا اینزائم تیار کر لیا ہے جو پلاسٹک کو کھا جاتا ہے اور یوں مستقبل میں اس اینزائم کی مدد سے آلودگی کو ختم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔
بتایا جاتا ہے کہ یہ تیار شدہ نیا اینزائم ہر قسم کے پلاسٹک کو کھا جانے کی صلاحیت رکھتا ہے جو پلاسٹک کی بوتلوں یا تھیلوں میں استعمال ہوتا ہے اور کئی صدیوں تک ماحول میں موجود رہ کر کرہ ارض اور پانیوں میں شدید آلودگی کا باعث بنتا ہے۔
برطانیہ کی یونیورسٹی آف پورٹس ماؤتھ اور دوبارہ کارآمد بنائی جانے والی توانائی کے امریکی محکمے نےایک قدرتی اینزائم کی ساخت کا مطالعہ کرتے ہوئے ایک ایسا اینزائم دریافت کیا ہے جو مبینہ طور پر جاپان میں فضلے کو ری سائیکل کرنے کے مرکز میں تخلیق پاتا ہے۔
یونیورسٹی آف پورٹس ماؤتھ کے سائنس دان جان میک گیہن کا کہنا ہے کہ امریکی اور برطانوی سائنس دانوں پر مشتمل اُن کی ٹیم نے اس اینزائم کی ساخت میں تبدیلی کرتے ہوئے اس میں امینو ایسڈ شامل کر لئے جس کے نتیجے میں مذکورہ اینزائم کی کارکردگی میں ایک غیر متوقع تبدیلی واقع ہوئی اور اس کی پلاسٹک کھا جانے کی رفتار میں تیزی سے اضافہ ہو گیا۔
پروفیسر میک گیہن نے خبر رساں ایجنسی رائیٹرز کو بتایا کہ اُن کی ٹیم نے اس تبدیلی سے قدرتی اینزائم کے مقابلے میں کہیں زیادہ فعال اینزائم تیار کر لیا ہے۔ اس ٹیم کی دریافت کے بارے میں ایک مقالہ نیشنل اکیڈمی آف سائینسز کے تحقیقی جریدے میں شائع کیا گیا ہے جس میں واضح کیا گیا ہے کہ تحقیقی ٹیم اب اس نئے اینزائم کو مزید فعال بنانے کی کوشش کر رہی ہے تاکہ اسے صنعتی پیمانے پر استعمال کیا جا سکے۔
پروفیسر میک گیہن کو یقین ہے کہ نئے اینزائم کی صلاحیت میں مزید اضافے سے مستقبل قریب میں ہر قسم کے پلاسٹک کو ری سائیکل کیا جا سکے گا۔
ایسے ماہرین بھی جو اس تحقیق سے وابستہ نہیں ہیں، اعتراف کرتے ہیں کہ یہ دریافت بہت ہی خوش آئند ہے۔ ملبرن یونیورسٹی میں کیمسٹری کے ماہر اولیور جان کہتے ہیں کہ اینزائم زہریلے نہیں ہوتے، انہیں حیاتیاتی طور پر ختم کیا جا سکتا ہے اور ان میں بہت بڑی تعداد میں مائکرو جرثومے بنانے کی صلاحیت ہوتی ہے۔ لہذا اس نئے اینزائم کے ذریعے پلاسٹک کو ختم کرنے میں یقینی طور پر مدد مل سکتی ہے۔
یوں توقع ہے کہ مستقبل قریب میں استعمال شدہ پلاسٹک کے فضلے سے ماحولیاتی آلودگی دور کرنے میں مدد ملے گی۔
تاہم رضیہ بی بی جیسے خریداروں کے لئے بھی ضروری ہو گا کہ پلاسٹک تھیلوں کا استعمال کم سے کم کیا جائے۔ بہت سے گروسری سٹوروں نے پہلے ہی پلاسٹک تھیلوں کا استعمال ختم کر کے کاغذ کے تھیلے فراہم کرنے شروع کر دیئے ہیں۔