سوشل میڈیا کی دنیا جہاں انفلوئنسرز سے بھری پڑی ہے جو نت نئی اشیا خریدنے کی تشہیر کرتے ہیں وہیں ٹک ٹاک پر ایسے ’ڈی انفلوئنسرز‘ بھی سامنے آ رہے ہیں جو لوگوں کو بتاتے ہیں کہ کون سی اشیا اور مصنوعات معیاری نہیں ہیں اور ان کو نہیں خریدنا چاہیے۔
سوشل میڈیا کے ذریعے مصنوعات کے غیر معیاری ہونے کی نشان دہی کرنے کے ٹرینڈ کو ’ڈی انفلوئنسنگ‘ کا نام دیا گیا ہے۔
اس سے قبل سوشل میڈیا پر ’ٹک ٹاک میڈ می بائے اٹ‘ ( #TikTokMadeMeBuyIt) کا ٹرینڈ مشہور تھا جہاں صارفین بتاتے تھے کہ سوشل میڈیا کے زیرِ اثر انہوں نے کس کس چیز کی خریداری کی ہے۔
اب ٹک ٹاک پر ویڈیوز بنانے والے بعض صارفین اپنے فالورز کو بتا رہے ہیں کہ کن مصنوعات سے پرہیز کر کے وہ اپنے پیسے بچا سکتے ہیں۔
یہ ڈی انفلوئنسرز صارفین کو ٹرینڈز کی وجہ سے متاثر نہ ہونے اور خود کو خریداری سے روکنے کا درس دے رہے ہیں۔
کچھ ان میک اپ کی مصنوعات سے آگاہ کر رہے ہیں جنہوں نے دعوے تو بڑے کیے مگر ان کا معیار ناقص ہے جب کہ دوسرے ان بالوں کے اسٹائل اور پانی کی بوتلوں جیسی اشیا سے باز رہنے کا کہہ رہے ہیں جنہیں ٹک ٹاک کے ذریعے ہی پذیرائی ملی ہے۔
ہیش ٹیگ #Deinfluencing پر موجود ویڈیوز کو محض چند مہینوں میں اب تک 15 کروڑ دفعہ دیکھا جا چکا ہے۔
خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ کے مطابق اس ہیش ٹیگ پر موجود ابتدائی ویڈیوز میں سے ایک میک اپ مصنوعات کی فروخت کرنے والی کمپنی الٹا اور سیفورا کے ایک سابق ملازم پیج پریچرڈ کی جانب سے بنائی گئی تھی جس نے اکثر واپس کرائی جانے والی مصنوعات کی تفصیل بتائی تھی۔
پیج پریچرڈ نے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ کو بتایا کہ یہ بہت خوش آئند ہے کہ صارفین نے اس مکالمے کی ابتدا کی۔
وہ خرچے کی عادتوں کو بہتر کرنے کی ٹک ٹاک پر کوچنگ ویڈیوز بناتی ہیں اور لوگوں کو مالی مشورے دیتی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے یہ کریئر تب منتخب کیا تھا جب کالج سے پاس آؤٹ ہونے کے اگلے برس ہی انہوں نے 60 ہزار ڈالر کی آمدن کپڑوں، میک اپ اور بالوں کی مصنوعات پر خرچ کی تھی۔
اس وقت پیج اپنے والدین کے ساتھ رہ رہی تھیں اور اپنا اسٹوڈنٹ لون واپس کرنے کی کوشش میں تھیں۔
ان کے مطابق وہ یوٹیوب پر ایسے انفلوئنسرز کی ویڈیوز سے متاثر تھیں جو معاوضہ لے کر مختلف برینڈز کی مصنوعات کی تشہیر کرتے تھے۔ وہ جب بھی کپڑوں کے برینڈز کے اسٹورز میں جاتیں تو 500 ڈالرز تک خرچ کر آتی تھیں۔
بقول ان کے جب اپنا گھر لینے کا وقت آیا تو مجھے خیال آیا کہ میرے پاس تو رقم باقی نہیں رہی اور سال کے آخر میں اپنے والدین کا گھر چھوڑنا ان کے بس سے باہر تھا۔
انہوں نے بتایا کہ انہیں کافی شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا اور یہ ان کے لیے فیصلہ کن لمحہ تھا۔
ایسے ہی 23 سالہ اسٹیفنی ٹیران کا کہنا ہے کہ جب ان کی بھابھی نے انہیں بتایا کہ وہ ٹک ٹاک پر مشہور ’اسٹینلی کپ‘ خریدنا چاہتی ہیں۔ لیکن وہ تمام فروخت ہوچکے ہیں۔ اسٹیفنی کے بقول انہوں نے اپنی بھابھی کو کہا کہ وہ کسی بھی اسٹور پر جا کر عام سا کپ خرید سکتی ہیں۔
یونیورسٹی آف ایسیکس میں مارکیٹنگ کے لیکچرار ابھیشیک کنار نے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ کو بتایا کہ جہاں ٹک ٹاک پر ٹرینڈ آتے جاتے رہتے ہیں وہیں کنزیومر ازم پر تنقید بھی نئی نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ایسے انفلوئنسر جو آج ڈی انفلوئنسنگ کے ٹرینڈ پر سوار ہو رہے ہیں ان کے پاس موقع ہے کہ وہ صارفین کا اعتماد حاصل کرسکیں۔
ابھیشیک ’جنریشن زی‘ اور کانٹینٹ کریٹرز کے تعلق پر تحقیق کر رہے ہیں۔ ان کے بقول بعض دوسرے محققین کے ساتھ کی گئی ان کی ایک تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ ’جنریشن زی‘ یا نئی نسل ایسے انفلوئنسرز کی مہم پر توجہ نہیں دیتے جن کے بارے میں ان کا خیال ہو کہ ان کی رائے بڑی کمپنیوں کے زیرِ اثر ہے۔
ان کے مطابق صارفین اصل رائے کو پذیرائی دیتے ہیں اور ایسے انفلوئنسرز جن کی رائے کسی کمپنی کے زیرِ اثر ثابت ہو وہ اعتماد کھو بیٹھتے ہیں۔
حال ہی میں ٹک ٹاک پر ایک کروڑ 44 لاکھ فالورز والی کانٹینٹ کریٹر میکیلا نوگوریا پر الزام عائد کیا گیا تھا کہ ’لوریئل‘ نامی کمپنی کے مسکارا کی ایک مہم کے دوران انہوں نے مصنوعی آئی لیشز کا استعمال کیا۔ ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ کے مطابق میکیلا کے ترجمان نے تبصرے کی درخواست پر کوئی جواب نہیں دیا۔
ابھیشیک کا کہنا ہے کہ انفلوئنسرز ابھی بھی بہت اگرچہ اہم ہیں البتہ ان پر صارفین کے اعتماد میں کمی آتی جا رہی ہے۔
اس خبر کے لیے مواد خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ سے لیا گیا۔