میرین کور کے جنرل کینتھ فرینک مکنزی نے امریکی فوج کی سینٹرل کمان کے سربراہ کا عہدہ سنبھال لیا ہے۔
امریکی فوج کی سینٹرل کمان مشرقِ وسطیٰ، وسطی ایشیا اور جنوب مغربی ایشیا میں فوجی کارروائیوں کی نگرانی کرتی ہے۔
جمعرات کو فلوریڈا کے میکڈل ایئر فورس کے ٹمپا بیس میں منعقد کمان سنبھالنے کی خصوصی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے، مکنزی نے کہا کہ اُن کی کمان ’’وہ کچھ کرنے کے لیے تیار ہے جو کہ اسے کہا گیا ہے‘‘، ایسے میں جب امریکہ نے عراق اور شام میں داعش کے خاتمےکی کارروائیاں مکمل کرلی ہیں اور افغانستان میں طالبان پر دباؤ ڈالنے کی کوششیں جاری ہیں۔
مکنزی نے آرمی جنرل جوزف وٹل سے عہدے کا چارج لیا، جنھوں نے 30 مارچ 2016ء سے امریکی سنٹرل کمان کی سربراہی کے فرائض انجام دیے۔
وٹل نے خطے میں امریکی اور بین الاقوامی کوششوں کو سراہا؛ اور دیگر ملکوں سے تعلق رکھنے والے فوجی قائدین کی تقریب میں شرکت کی تعریف کی۔
اُنھوں نے کہا کہ ’’ہماری مدد سے شکست و پسپائی سے ہمکنار عراقی فوج، ایک بار پھر ’فینکس‘ کے انداز میں دشمن پر جھپٹی؛ اور 2014ء میں ابھر کر سامنے آئی اور اب فخریہ طور پر اپنے ملک کا دفاع کر رہی ہے‘‘۔
سال 2014میں عراق اور شام میں داعش کا زور تھا، جب کہ گذشتہ ہفتے بین الاقوامی افواج نے دولت اسلامیہ کی شکست کا اعلان کیا ہے اور مشرقی شام میں واقع داعش کے آخری گڑھ کو واگزار کرا لیا ہے۔
وٹل نے کہا کہ ’’ہم کبھی بھی انتہاپسندوں کو اس علاقے میں پنپنے کی اجازت نہیں دیں گے، تاکہ اس مقام سے کبھی ہمارے ملک پر حملے کا نہ سوچا جا سکے’’، اور ’’ہمارے لیے لازم ہے کہ اہم آبی گزرگاہوں کی جانب رسائی کی نگرانی کی جائے، جہاں سے عالمی کاروبار میں مدد ملتی ہے اور جہازرانی کی آزادی کو یقینی بنایا جاسکتا ہے‘‘۔
وٹل نے افغانستان میں جاری لڑائی کا بھی حوالہ دیا، اور افغان اور بین الاقوامی ساجھے داروں کی تعریف کی جنھوں نے ’’فوجی دباؤ ڈال کر طالبان کو مذاکرات کی میز پر آنے پر مجبور کیا اور بات چیت کے ذریعے اس طویل لڑائی کے تصفیے کی اصل راہ کی جانب ڈال دیا‘‘۔
ایسے میں جب افغانستان میں افغان سیکورٹی فورسز انتہاپسندوں کے خلاف لڑائی کی قیادت کر رہی ہیں، امریکی فوج تقریباً دو عشروں سے مختلف حیثیت سے افغانستان کی لڑائی میں ساتھ دے رہی ہے، جس حقیقت پر امریکی صدر نے شدید نکتہ چینی کی ہے۔
ووٹل نے کہا کہ ’’ہمارے صدر نے حالیہ دنوں کہا ہے کہ عظیم قومیں ہمیشہ لڑائیاں نہیں لڑا کرتیں، اور ہمیں بھی ایسا نہیں کرنا چاہیئے۔ اب وقت آگیا ہے کہ تمام تنازعات کا اختتام ہو‘‘۔
ساتھ اُنھوں نے کہا ’’لیکن، کوئی چاہے بھی تو فوری طور پر ایسا نہیں ہوگا، لیکن ایسا ہو سکتا ہے‘‘۔
جنگ کے شکار افغانستان میں اس وقت اندازاً 14000 امریکی فوج تعینات ہے۔