کراچی کے متمدن معاشرے سے تعلق رکھنے والے کچھ مبصرین کا کہنا ہے کہ شہر میں عرصے سے جاری بدامنی اور لاوارث لاشوں کی برآمدگی نے شہر کے سردخانوں کو ’آباد‘ رکھا ہوا ہے، یہی وجہ ہے کہ آبادی کے ساتھ ساتھ شہر میں سردخانوں کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے۔ پہلے ایک، دو ہی سرد خانے ہوا کرتے تھے، مگر اب ان کی تعداد بھی نصف درجن یا پھر اس سے بھی زیادہ ہو گئی۔
پچھلے ماہ کی 13 تاریخ کو سماجی کارکن، رمضان چھیپا کے ادارے کی جانب سے بھی ایک نیا سرد خانہ قائم کردیا گیا ہے، جو شاہراہ فیصل پر فنانس اینڈ ٹریڈ سینٹر کے سامنے اور صدر سے آنے والی سڑک کے ایک کنارے موجود ہے۔
سرد خانے میں اپنی معمول کی ڈیوٹی انجام دینے والے چھیپا کے ترجمان، جنہوں نے ’وائس آف امریکہ‘ سے اپنا نام شائع نہ کرنے کی درخواست کی ہے، وہ سول سوسائٹی کے اس مؤقف سے اتفاق نہیں کرتے۔
ترجمان کا کہنا ہے کہ چھیپا یا ایدھی سرد خانے شہر میں دہشت گردی کا خدشہ بڑھ جانے کے خوف سے قائم نہیں ہو رہے بلکہ یہ سینٹر ان علاقہ مکینوں کی سہولت کے پیش نظر کھولا گیا ہے جو شہر کے جنوبی علاقوں یا یوں کہہ لیں کہ کلفٹن، ڈیفنس، صدر، طارق روڈ، لائنز ایریا، اولڈ سٹی ایریا، پی ای سی ایچ سوسائٹی، بہادر آباد، کورنگی، محمود آباد، گارڈن، لیاری، کیماڑی، سولجر بازار، شارع فیصل اور اس کے اطرافی علاقوں کی عوام کی سہولت کے لئے کھولا گیا ہے۔ انہیں سرد خانے میں اپنے عزیزوں یا یار دوستوں کی میتیں سرد خانے میں رکھوانے کے لئے سہراب گوٹھ نہیں جانا پڑے گا۔
ادارے کے سربراہ رمضان چھیا ہیں جن کا کہنا ہے کہ سرد خانے کے قیام کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ وہ مردوں کو اپنے ہاتھ سے غسل کرانا، انہیں کفن پہنانا اور تدفین میں حصہ لینا باعث ثواب سمجھتے ہیں۔ ان کے نزدیک نیکی کا اس سے بڑا موقع اور کیا ہوسکتا ہے۔ لہذا، یہ سرد خانہ ان کے لئے نیکیوں میں اضافے کا ایک بڑا سبب بھی ہے۔
ادارے کے دو اور دیرینہ ملازم سلیم اللہ اور اصغر رضا نے وی او اے سے گفتگو کے دوران بتایا کہ ’سرد خانے میں بیک وقت 100 سے زیادہ میتیں رکھنے کی گنجائش موجود ہے۔ پہلے ہمارے ادارے کو بھی میتیں رکھوانے کے لئے سہراب گوٹھ پر واقع ایدھی سرد خانے جانا پڑتا تھا، مگر اب تمام میتیں یہیں رکھی جاتی ہیں۔‘
ترجمان کے مطابق، ’سرد خانہ ناصرف میت رکھتا ہے بلکہ کفن، دفن اور غسل میت کے کام بھی ہم انجام دیتے ہیں۔ حادثاتی طور پر انتقال کر جانے والوں کے لواحقین اور لاوارثوں سے کوئی معاوضہ وصول نہیں کیا جاتا بلکہ یہ تمام کام فی سبیل اللہ اور نیکی کی غرض سے انجام دیئے جاتے ہیں۔ کسی بھی حادثے کی صورت میں اگر کوئی فرد انتقال کر جائے تو اس کے گھروالوں سے ٹرانسپورٹیشن، کفن، تدفین اور غسل کی سروس فراہم کرنے تک کے تمام کام بلامعاوضہ انجام دیئے جاتے ہیں۔ تاہم، جو لوگ گھر چھوٹے ہونے کی وجہ سے یا کسی رشتے دار کے انتظار میں میت سرد خانے میں رکھواتے ہیں ان سے سروس چارجز لئے جاتے ہیں مگر وہ بھی بہت ہی کم یا مناسب انداز میں۔‘
وائس آف امریکہ کے نمائندے کے ایک سوال کے جواب میں ترجمان کا کہنا تھا ’چھیپا کا ابھی کوئی مخصوص قبرستان نہیں ہے جیسا کہ ایدھی ٹرسٹ کا ہے۔ ابھی ہم تمام لاوارث لاشیں کورنگی کے قبرستان میں ہی سپرد خاک کرتے ہیں۔‘
ترجمان کایہ بھی کہنا تھا کہ انہیں جو بھی لاوارث لاش کہیں سے ملنے کی اطلاع ملتی ہے وہ موقع پر پہنچ کر اسے ہاتھ لگانے سے بھی پہلے پولیس کو اطلاع دیتے ہیں۔ پولیس کے وہاں پہنچنے پر لاش قریبی اسپتال منتقل کی جاتی ہے جہاں ایم ایل او اس کا معائنہ کرتا اور پوسٹ مارٹم کراتا ہے۔ اس کے بعد، پولیس ہی اس بات کا تعین کرتی ہے کہ میت ہمیں کتنے دن اس کے ورثاء کے انتظار میں سرد خانے میں رکھنا ہے۔ مقررہ مدت کے بعد، پولیس کی موجودگی میں ہی لاش کو سردخانے سے نکال کر سپرد خاک کیا جاتا ہے۔ اس تمام عمل کا باقاعدہ دستاویزی ریکارڈ سرد خانے میں رکھا جاتا ہے۔‘