رسائی کے لنکس

کيا نيا وزيراعظم سوئس حکام کو خط لکھے گا؟


پاکستان ميں سپريم کورٹ کے فيصلے کي روشني ميں مسٹر يوسف رضا گيلا ني کي بحثيت وزيراعظم نااہلي کے بعد ايک دلچسپ بحث بھي چھڑ گئي ہے۔ مسٹر گيلاني کو سپريم کورٹ کي جانب سے اس بات پر نا اہل قرار ديا گيا ہے کہ انہوں نے عدالت عظمي کے احکامات کے مطابق صدرآصف علي زرداري کے مقدمے دوبارہ کھولنے کے لئے سو ئيٹزر لينڈ کے حکام کو خط لکھنے سے انکار کر ديا تھا اور اسطرح وہ توہين عدالت کے مرتکب ہوئے۔ مسٹر گيلا ني کا موقف تھا کہ آئين کي رو سے صدر کو آرٹيکل 248کے تحت استثنيٰ حاصل ہے اور وہ يہ خط نہيں لکھ سکتے۔ لیکن اب کہ جبکہ سپريم کورٹ کے فيصلے کے بعد يوسف رضا گيلاني کي چھٹي ہو چکي ہے ، يہ سوال جنم لے رہا ہے کہ آیا نيا وزيراعظم سوئس عدالتوں کو خط لکھے گا ؟

يہ بات قابل ذکر ہے کہ پيپلز پارٹي کے ايک اعلي عہديدار يہ کہہ چکے ہيں کہ جو بھي وزيراعظم آئے گا وہ ايسا نہيں کرے گا۔ اس صورت ميں سپريم کورٹ کا رد عمل کيا ہو گا ؟ يہ بھي ايک سواليہ نشان ہے۔ اس پس منظر ميں پيپلز پارٹي کي ايک سينیئر راہنما ياسمين رحمن نے وائس آف امريکہ کو ايک انٹرويو ميں بتايا کہ اگلے وزير ا عظم کا موقف بھي وہي ہو گا جو سابق وزير ا عظم گيلاني کا تھا۔ انہوں نے زور ديتے ہوئے کہا کہ پيپلز پارٹي کے موقف ميں کوئي تبديلي نہيں آئےگي، کيونکہ انکے الفاظ ميں صدر زرداري کو آرٹيکل 248کے تحت استثنيٰ حاصل ہے اور انکے خلاف سوئس حکام کو خط لکھنا آئين کي خلاف ورزي ہو گي۔

دوسري جانب سپريم کورٹ کے وکيل ، جناب شبير شر کا کہنا تھا کہ عدالت کا فيصلہ کسي ايک فرد يا ادارے تک محدود نہيں ہے اور فيصلے پرہر صورت ميں عمل کرنا ہوتا ہے۔ انہوں نےمزيد کہا کہ نئے وزيراعظم کے لئے بھي عدالت کا يہي حکم ہو گا اور انکے مطابق عدالت کے احکامات نہ ماننے کي صورت ميں تيس سيکنڈ کي سزا چھ مہينے ميں بھی بدل سکتي ہے۔

اپوزيشن جماعت مسلم ليگ ن کے سينیئر راہنما ، جناب صديق الا فاروق کا کہنا تھا کہ نہ تو پارليمنٹ سپريم کورٹ کي اور نہ ہي سپريم کورٹ پارليمنٹ کي جگہ لے سکتي ہے۔ لیکن ان کا کہنا تھا کہ آئين عدالت کي حکم عدولي کرنے کا اختيار نہيں ديتا۔ انہوں نے مزيد کہا کہ اگر نيا وزيراعظم سوئس حکام کو صدر زرداري کے خلاف خط نہيں لکھتے اور اسمبلي کو تحليل کرکے نئے انتخابات کا اعلان نہيں کرتے، تو انکي جماعت نئي حکمت عملي کا اعلان کرے گي۔

معروف تجزيہ نگار نادر بخت کا کہنا تھا کہ ملک ميں موجودہ سياسي اور آئيني بحران سے نمٹنے اور اداروں ميں بظاہر ٹکراؤ کا واحد حل تمام اداروں کا باہمي مشاورت کے ذريعے مسائل کا حل تلاش کرنا ہے۔

بہرحال اب يہ ديکھنا ہے کہ آئيني اور سياسي موشگافيا ں کيا رخ اختيار کرتي ہيں اور پاکستان کے سياسي منظرنامے کو کس طرح متاثر کرتي ہيں۔ ادھر اگلے سال کے شروع ميں مقررہ وقت کے مطابق عام انتخابات بھي ہونے ہيں جب کہ بعض سياسي جماعتوں کي طرف سے وقت سے پہلے انتخابات کا مطالبہ بھي زور پکڑتا نظر آتا ہے۔ سياسي مبصرين کا خيال ہے کہ نئے وزيراعظم کي جانب سے جو بھي رويہ اختيار کيا جائے گا وہ يقيناً ملک کے سياسي افق پر گہرے نقوش مرتب کرے گا ۔

بہت سے مفروضے جنم ليتے نظر آتے ہيں ، ليکن اونٹ کس کروٹ بيٹھے گا، يہ آنے والا وقت ہي بتائے گا۔ تاہم اس ميں شک نہيں کہ اس تمام صورتحال کو سياسي تجزيہ نگار اور قانوني ماہرين نہايت دلچسپي سے ديکھ رہے ہيں۔ جبکہ روزمرہ کے مسائل ميں گرفتار عام لوگ بظاہر خاموش تما شائي نظر آتے ہيں۔

XS
SM
MD
LG