|
امریکہ میں رواں برس نومبر میں ہونے والے صدارتی انتخابات میں لاکھوں تارکینِ وطن نئے ووٹرز پہلی بار ووٹ ڈالنے کی تیاری کر رہے ہیں۔
امریکن امیگریشن کونسل (اے آئی سی) کے مطابق نئے امریکی شہری انتخابات پر بہت زیادہ اثر انداز ہو سکتے ہیں۔ ایسا خاص طور پر ان ریاستوں میں ہو سکتا ہے جو کسی بھی پارٹی کے حق میں جا سکتی ہیں اور جہاں تارکین بڑی تعداد میں آباد ہیں۔
اے آئی سی کے مطابق امریکہ کی شہریت کی درخواست دینے والے اہلِ تارکینِ وطن میں ہر چار میں سے تین امریکی شہری بن چکے ہیں۔ کئی اہم ریاستوں میں شہری بننے کے اہل تارکین وطن کی تعداد سال 2020 کے صدارتی انتخابات میں فتح کے فرق سے زیادہ ہے۔
ریاست ایریزونا میں 2016 اور 2020 کے دوران شہری بننے والے لوگوں کی تعداد گزشتہ الیکشن میں صدر جو بائیڈن کی فتح کے فرق سے چھ گنا زیادہ تھی۔
غیر منافع بخش تنظیم "ووٹ" کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر برائن ملر نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ایسی ریاستیں جہاں کانٹے کا مقابلہ ہوگا وہاں تارکینِ وطن کی تعداد "سوئنگ ووٹ" سے زیادہ ہے۔ لہذا اس کا مقامی اور قومی انتخابات دونوں کے مقابلوں پر بڑا اثر ہو سکتا ہے۔
ایشیائی امریکی ووٹروں کو متحرک کرنے میں مدد کرنے والی تنظیم "ایشین پیسیفک آئی لینڈر امریکن ووٹ" کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر اور شریک بانی کرسٹین چن نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ سال 2020 کے الیکشن میں کانٹے کے مقابلے کی ریاستوں میں ایشیائی اور پیسیفک جزیرے سے تعلق رکھنے والے ووٹروں کی تعداد فتح کے فرق سے زیادہ تھی۔
چن نے کہا، "جب آپ 2020 کے اعداد و شمار پر نظر ڈالتے ہیں، تو کمیونٹی کے 21 فی صد ووٹر وہ تھے جنہوں نے پہلی بار ووٹ ڈالا جب کہ عام لوگوں میں پہلی بار ووٹ دینے والے 14 فی صد تھے۔"
انہوں نے کہا کہ ایک کمیونٹی کے طور پر نہ صرف ہماری آبادی میں اضافہ ہو رہا ہے بلکہ ہم شہری بن رہے ہیں اور ہم اپنے ووٹر کے اندراج اور شرکت کو بڑھا رہے ہیں۔
تاہم، کوششوں کے باوجود نئے امریکی شہریوں کو اب بھی امریکہ میں پیدا ہونے والوں کے ووٹر ٹرن آؤٹ کی شرح حاصل کرنے میں رکاوٹوں کا سامنا ہے۔
ریاست ایریزونا میں غیر منافع بخش تنظیم "شکانوز پورلا کاسا" کے پبلک پالیسی کے نائب صدر جو کارسیا نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ کئی عوامل کے باعث لاطینیوں تک پہنچنا مشکل ہے۔
انہوں نے کہا کہ بہت سے لاطینی ایسے گھرانوں سے آتے ہیں جہاں ووٹنگ کا روایتی طور پر رواج نہیں تھا یا ووٹ ڈالنے پر زور نہیں دیا جاتا تھا۔ اگر ان کے والدین نے ووٹ نہیں دیا تو اس بات کا بہت زیادہ امکان ہے کہ ان کے بچے بھی ووٹنگ کو ترجیح نہیں دیں گے۔
ان کے بقول ووٹنگ کا عمل باعثِ زحمت ہو سکتا ہے، خاص طور پر ان کے لیے جو پہلی بار ووٹ دیتے ہیں۔ بیلٹ کی پیچیدگی اور ووٹنگ کے طریقہ کار سے ناواقفیت لوگوں کو الیکشن کے عمل میں حصہ لینے سے روک سکتی ہے۔
اس کے علاوہ، ثقافتی اور زبان کی رکاوٹ ہونے کے چیلنجز بھی ممکنہ ووٹروں کو ووٹنگ سے مزید دور کرسکتے ہیں۔
تنظیم "شکانوز پورلا کاسا" ان رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے نوجوانوں تک پہنچنے کے لیے حکمتِ عملیاں اپناتی ہے جو اکثر انسٹاگرام جیسے ڈیجیٹل میڈیا پلیٹ فارم سے زیادہ جڑے رہتے ہیں۔ ان حمکت عملیوں کا مقصد لاطینی باشندوں کو ووٹنگ کی اہمیت کے بارے میں آگاہ کرنا اور یہ اجاگر کرنا ہے کہ ووٹ ڈالنا ان کی کمیونٹیز کو درپیش اہم مسائل پر کیسے براہِ راست اثر انداز ہوتا ہے۔
گارسیا کا کہنا ہے یہ لوگوں پر واضح کرنا ہے کہ ان کا ووٹ سستی رہائش، تعلیم، افرادی قوت کی ترقی، صحت اور انسانی خدمات جیسے بہت سے اہم مسائل کے حوالے سے اہمیت رکھتا ہے۔
تحقیقی ادارے پیو ریسرچ سینٹر کے مطابق 35 لاکھ تارکین وطن اہل ووٹرز کا تعلق میکسیکو سے ہے جو کسی بھی دوسرے ملک سے زیادہ ہے۔
تنظیم کے ایک سروے کے مطابق ایشیائی اور پیسیفک آئی لینڈرز کمیونٹی کے نزدیک ملازمتیں، معیشت، صحت کی دیکھ بھال اور مہنگائی اہم مسائل ہیں۔
چن نے جارجیا اور نیواڈا جیسی اہم ریاستوں میں ووٹرز کو مشغول کرنے کی اہمیت کو اجاگر کیا جہاں انتخابات میں کانٹے کا مقابلہ ہوتا ہے۔ دونوں ریاستوں میں کمیونٹی کے پہلی بار ووٹ ڈالنے والے افراد کی شرح بالترتیب 26 اور 25 فی صد تھی۔
چن کے بقول انہوں نے جو بات نوٹ کی وہ یہ ہے کہ سیاسی جماعتوں کو ووٹرز تک پہنچنے کا کا م بہتر طریقے سے کرنے کی ضرورت ہے۔
ان کے مطابق سروے میں شامل صرف 54 فی صد ووٹرز نے کہا کہ ان سے ڈیموکریٹس یا ری پبلکنز نے رابطہ کیا۔
صدر بائیڈن نے جولائی میں ایشیائی امریکی ووٹرز تک پہنچنے کی مہم شروع کی۔ اس سے قبل انہوں نے سیاہ فام اور لاطینی ووٹروں پر توجہ مرکوز کرنے کے لیے اقدامات کیے تھے۔
نائب صدر کاملا ہیرس نے نیواڈا اور پینسلوینیا کی ریاستوں میں تقریبات کا انعقاد کیا اور فلاڈیلفیا شہر میں 13 جولائی کو صدارتی ٹاؤن ہال سے خطاب بھی کیا۔ اسی ٹاون ہال میں خطاب کے لیے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی مہم کو بھی مدعو کیا گیا تھا۔
فورم