رسائی کے لنکس

نیویارک دھماکے کے بعد افغان نژاد امریکی برادری میں تشویش


فائل فوٹو
فائل فوٹو

افغان نژاد امریکی اور مسلمان کمیونٹی کے خلاف مجموعی طور پر پرتشدد ردعمل کا زیادہ خدشہ موجود ہے اس تناظر میں امام اور کمیونٹی رہنماؤں نے اپنے لوگوں کو آنے والے کچھ دنوں میں محتاط رہنے کامشورہ دیا ہے ۔

رواں سال جون میں امریکہ میں فلوریڈا کے شہر اورلینڈو میں ایک نائٹ کلب پر فائرنگ کے واقعہ کے بعد کئی افغان امریکیوں نے خود کو نیویارک میں پیدا ہونے والے حملہ آور عمر متین کے فعل سے دور کر لیا تھا۔

عمر کے والدین 1980 کی دہائی میں افغانستان سے ہجرت کرنے کے بعد امریکہ میں آباد ہوئے تھے۔

وائس آف امریکہ کے مسعود فریور کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ اختتام ہفتہ نیویارک اور نیو جرسی میں ہوئے بم دھماکوں میں افغان نژاد احمد خان راحمی کے ملوث ہونے کے بعد بعض افراد کا کہنا ہے کہ ان کے لیے اس موقف کو برقرار رکھنا ممکن نہیں رہا ہے کہ اس واقعہ کا ارتکاب کرنے والا ان میں سے نہیں ہے۔

افغان برادری کی ایک رہنما اور نیویارک میں فلشنگ کے علاقے میں واقع مسجد دارالتقویٰ کی رکن منیزہ نادری نے کہا کہ "ہم صرف یہ نہیں کہہ سکتے ہیں کہ اُس کا ہم سے کوئی تعلق نہیں ہے۔۔۔ہمیں اس حوالے سے کچھ ذمہ داری قبول کرنی ہو گی کہ وہ افغان نژاد امریکی ہے اور ہم کیسے اس بات کو یقینی بنا سکتے ہیں کہ برداری کے دیگر افراد (نوجوان) شدت پسندی میں ملوث نا ہوں۔"

28 سالہ راحمی کو نیوجرسی کے علاقے لنڈن سے پیر کو پولیس نے فائرنگ کے تبادلے کے بعد حراست میں لیا تھا اور یہ جگہ الزبیتھ کے علاقے جہاں ان کا گھر ہے سے چھ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔

نیویارک شہر کے میئر بل ڈی بلاسیو نے کہا کہ یہ صرف راحمی ہی ہے جو نیویارک اور نیو جرسی کے دھماکوں میں ملوث ہے۔ نیویارک بم دھماکے میں 29 افراد زخمی ہوئے تھے۔

دارالتقویٰ کی مسجد کے امام اکبر شیرزاد نے جو نیوجرسی کے شہر سمرسیٹ میں مقیم ہیں، نے کہا کہ انہوں نے نیوجرسی میں کئی افغانیوں سے بات کی ہے اور ان میں سے کوئی بھی راحمی اور اس کے خاندان کو نہیں جانتا ۔

شیرزاد نے ان دھماکوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ان (دھماکوں) سے نیویارک اور اس کے نواحی علاقوں میں مقیم لگ بھگ 30 سے 50 ہزار افغان نژاد امریکی شہریوں کو صدمہ ہوا ہے۔

"میرے خیال میں ہم مستقبل میں ایسے واقعات کو روکنے کے لیے خاندانوں کے ساتھ مکالمہ کرنے کی اپنی کوششوں کو تیز کر سکتے ہیں۔"

اگرچہ بعض مسلمان امریکی نوجوان کچھ انتہا پسند افراد سے اپنے تعلق کی بنا پر شدت پسندی کی طرف مائل ہو جاتے ہیں تاہم شیرزاد نے کہا کہ اس معاملے کا تعلق کمیونٹی سے نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ "بدقسمتی سے ان خاندانوں کے بچے جو اپنی کمیونٹی اور مساجد سے دور ہیں وہ (شدت پسندی) کا شکار ہو گئے ہیں۔ ان بچوں کا اپنے والدین کے علم کے بغیر اپنے کام کی جگہ یا کالج میں (انتہاپسند) گروپوں سے رابطہ ہو جاتا ہے۔"

راحمی کو پولیس مقابلے میں گولیاں لگی تھیں اور اسے اسپتال منتقل کر دیا گیا
راحمی کو پولیس مقابلے میں گولیاں لگی تھیں اور اسے اسپتال منتقل کر دیا گیا

الزبیتھ کے علاقے میں واقع دارالسلام مسجد سے منسلک ایک شخص نے کہا کہ راحمی کا کسی گروپ سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ امریکہ کے ایک موقر اخبار نیویارک ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق چار سال قبل راحمی اپنے آبائی ملک افغانستان میں کچھ وقت گزارنے کے بعد جب واپس آیا تو اس کا رجحان مذہب کی طرف ہو گیا۔

نیویارک اور ورجینیا میں افغان نژاد امریکی کمیونٹی کی مساجد سے منسلک اماموں کا کہنا ہے کہ انہوں نے نوجونواں کے ساتھ مکالمے کے پروگرام شروع کر رکھے ہیں اور وہ جمعہ کی نماز کے اجتماع میں شریک افراد کو انتہا پسندی کے رجحانات کے خلاف متنبہ کرتے ہیں۔

ورجینیا میں واقع افغان نژاد امریکی شہریوں کی ایک مسجد کے سربراہ محمد نادر حسینی نے کہا کہ "وہ افراد جو بدقسمتی سے ںظریاتی طور پر متاثر ہو کر شدت پسندی کی طرف مائل ہو جاتے ہیں ان کے خاندانوں کو بہت محتاط رہنا ہو گا۔"

امام شیرزاد نے کہا کہ ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے گزشتہ سال نیویارک کی دارالتقویٰ مسجد نے خاندانوں کے شام کے اجتماع کا پروگرام شروع کیا تھا جہاں نوجوان اور خاندان انتہاپسندی کے معاملے پر بات کرنے کے لیے آتے ہیں۔

شیرزاد نے کہا کہ "ہم ان کی بات سنتے ہیں۔۔ہم ان سے بات کرتے ہیں اور ہم ان کو سمجھاتے ہیں کہ کہیں وہ ان گروپوں کا نا شکار ہو جائیں جو ان کو نظریاتی طور پر تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔ ہم خاندانوں کو بتاتے ہیں کہ وہ (اپنے بچوں پر) اس حوالے سے نظر رکھیں کہ ان کے بچے کس قسم کے لوگوں سے رابطہ رکھتے ہیں۔"

تاہم انہوں نے کہا کہ شدت پسندی روکنے کے لیے مساجد کے زیادہ موثر کردار کی ضرورت ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ اپنی مسجد کے بورڈ کا اجلاس منعقد کریں گے اور اس کے علاوہ دیگر مقامی مذہبی رہنماؤں سے بھی ملاقات کریں گے تاکہ " مشترکہ طور پر کچھ اقدامات کیے جائیں۔"

دریں اثنا، افغان نژاد امریکی اور مسلمان کمیونٹی کے خلاف مجموعی طور پر پرتشدد ردعمل کا زیادہ خدشہ موجود ہے اس تناظر میں امام اور کمیونٹی رہنماؤں نے اپنے لوگوں کو آنے والے کچھ دنوں میں محتاط رہنے کامشورہ دیا ہے ۔

نادری نے کہا کہ "ہم یقینی طور پر محتاط ہیں۔"

انہوں نے اپنی کمیونٹی سے کہا کہ "وہ محتاط رہیں اور آئندہ کچھ دنوں تک اپنی سرگرمیوں کو محدود کر لیں اور مصروف مقامات سے دور رہیں جب تک یہ صورت حال بہتر نہیں ہو جاتی ہے۔ "

XS
SM
MD
LG