نیوزی لینڈ کی ایک میڈیا کمپنی اس کی ملازم خاتون کو صرف ایک ڈالر میں فروخت کی جا رہی ہے۔
امریکی خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کی ایک رپورٹ کے مطابق آسٹریلیا کی میڈیا انڈسٹری ان دنوں شدید مالی بحران کا شکار ہے۔ بحران سے نمٹنے کے لیے ایک مقامی کمپنی 'اسٹف' کو صرف ایک ڈالر میں فروخت کیا جا رہا ہے۔
'اسٹف' کے تحت نہ صرف کئی اخبارات شائع کیے جاتے ہیں بلکہ ایک مقبول نیوز ویب سائٹ بھی چلائی جا رہی ہے۔ کمپنی کا عملہ 400 صحافیوں سمیت 900 افراد پر مشتمل ہے۔
اسٹف کمپنی کی ملازم اور چیف آپریٹنگ آفیسر (سی ای او) کے عہدے پر تعینات خاتون ہی یہ کمپنی خرید رہی ہیں۔
اس بات کا اعلان کمپنی مالکان نے اتوار کے روز کیا ہے۔
کمپنی آسٹریلیا کے 'نائن انٹرٹینمنٹ' نامی ادارے کی ملکیت ہے۔ ادارے کو کرونا وائرس کی وبا پھیلنے کے سبب کئی مالی چیلینجز درپیش ہیں جب کہ کمپنی کو اشتہارات سے بھی کوئی آمدنی نہیں ہو رہی۔
آسٹریلیا کی اسٹاک مارکیٹ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں 'نائن انٹرٹیمنٹ' کا کہنا ہے کہ 'اسٹف' کو مینجمنٹ بائے آؤٹ ڈیل کے تحت اس کی سی ای او سینیڈ باؤچر کو اس ماہ کے آخرتک فروخت کردیا جائے گا۔
نائن انٹرٹینمنٹ کے سی ای او ہیو مارکس کا کہنا ہے کہ ہم نے اسٹف کی ملکیت کے حوالے سے ہمیشہ اس بات کو ترجیح دی ہے کہ یہ مقامی ملکیت کا حصہ رہے۔ اس سے نیوزی لینڈ کے صارفین میں مقابلے کی فضا برقرار رہے گی اور یہ ملک کے لیے بھی بہتر فیصلہ ہے۔
باؤچر کا کہنا ہے کہ خریداری کے حوالے سے ملنے والے مثبت رد عمل پر انہیں بہت خوشی ہے۔ اس کام کو انجام تک پہنچنے میں ایک ہفتے کا وقت لگ سکتا ہے۔
اننچاس سالہ باؤچر نے کرائسٹ چرچ میں رپورٹر کی حیثیت سے اپنے صحافتی کیرئیر کا آغاز کیا تھا جب کہ بعد کے سالوں میں انہوں نے کمپنی کو ڈیجیٹل بنانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ ان کا عملے میں کمی یا اخبارات بند کرنے کا فوری کوئی منصوبہ نہیں ہے۔
باؤچر کے بقول، "ملکیت کی تبدیلی سے کمپنی کو درپیش چیلنجز جادوئی انداز میں حل کرنے کا موقع نہیں ملے گا کیوں کہ یہ اتنا آسان بھی نہیں البتہ بہتری کے آثار ہیں۔"
ان کا کہنا ہے کہ وہ آن لائن قارئین کی تعداد میں اضافہ کرنا چاہتی ہیں۔ وہ محدود وسائل کے ساتھ کمپنی خرید رہی ہیں۔
مالی بحران سے نکلنے کی کوشش میں اسٹف نے عارضی طور پر ملازمین کی تنخواہوں میں کمی کا بھی اعلان کیا تھا جب کہ پچھلے مہینے جرمنی سے تعلق رکھنے والی ایک کمپنی 'باؤر میڈیا' نے نیوزی لینڈ میں اپنا آپریشن بند کردیا تھا جس کے تحت کئی رسائل و جرائد بھی بند کرنا پڑے تھے۔