رسائی کے لنکس

چینل 24 نیوز بند، ایک ہزار کارکن بے روزگار ہو گئے


پاکستان میں الیکٹرانک میڈیا کو ریگولیٹ کرنے والی اتھارٹی پیمرا کی جانب سے لائسنس معطل کیے کے بعد نجی ٹی وی کی انتظامیہ نے چینل 24 نیوز کو بند اور 965 ملازمین کو ملازمت سے فارغ کرنے کے لیے نوٹسز جاری کر دیے ہیں۔

پیمرا کا کہنا ہے کہ چینل 24 کو کئی بار نوٹسز بھیجے گئے، لیکن پراپرٹی کی خرید و فروخت کے لیے قائم چینل کی کیٹیگری تبدیل نہ کروانے پر چینل معطل کیا گیا ہے۔

پاکستان میں الیکٹرانک میڈیا بدستور مشکلات کا شکار ہے اور اس بار لاہور سے چلنے والا چینل 24 نیوز کا لائسنس معطل کر دیا گیا ہے۔ تین جولائی کو پیمرا کی جانب سے جاری ایڈوائزی میں کہا گیا تھا کہ چینل 24 نیوز غیر قانونی طور پر خبروں اور حالات حاضرہ کے پروگرام نشر کر رہا ہے جب کہ چینل کے پاس لائسنس تفریحی پروگراموں کی نشریات کا ہے۔

اتھارٹی کے آرڈر کے مطابق سینٹرل میڈیا نیٹ ورک نے ویلیو ٹی وی کے نام سے خریدے گئے لائسنس کو غیر قانونی طور پر نام تبدیل کر کے 24 نیوز بنایا۔ چینل کی انتظامیہ نے جاری کیے گئے اظہار وجوہ کے نوٹس کا جواب بھی نہیں دیا گیا ہے۔

لائسنس منسوخ نہیں بلکہ معطل کیا ہے: چیئرمین پیمرا

اس بارے میں چیئرمین پیمرا مرزا سلیم بیگ نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس چینل کو ہم نے کئی مرتبہ نوٹسز جاری کیے، عدالتی حکم نامہ پر اس پر ایکشن لیا گیا، چار شو کاز نوٹسز جاری کیے گئے، درحقیقت یہ ایک پراپرٹی چینل تھا۔ اس بات کی اجازت نہیں دی جا سکتی کہ لائسنس کوئی اور ہو اور چلایا کچھ اور جائے۔

انہوں نے بیرونی ممالک کی مثال دیتے ہوئے سوال اٹھایا کہ کیا امریکہ میں فیڈرل کمیونیکیشن اس طرح اجازت دے گا یا برطانیہ کی اتھارٹی اس طرح کے کام کی اجازت دے گی؟

انہوں نے یہ بھی بتایا کہ جو چینلز لائسنس کی خلاف ورزی کر رہے ہیں، ان سب کے خلاف ایکشن ہو گا، جس میں کافی چینل عدالت میں جا چکے ہیں۔

چیئرمین پیمرا نے کہا کہ چینل 24 کا لائسنس منسوخ نہیں کیا گیا بلکہ معطل کیا گیا ہے۔ چینل انتظامیہ ابھی بھی اپنے لائسنس کے مطابق چینل چلا سکتی ہے۔

ملازمین کو نوکری سے فارغ کرنے کی ذمہ داری چیئرمین پیمرا نے چینل انتظامیہ پر ہی ڈال دی اور کہا کہ جب کسی کو غلط کام سے منع کیا تو وہ یہ طریقہ کار اختیار کر لیتے ہیں۔

5 جولائی کی شام کو مختلف صحافیوں کی جانب سے قائم واٹس گروپس میں چینل کے سی ای او محسن نقوی کے میسج کا اسکرین شاٹ شیئرکیا گیا، جس میں پڑھا جا سکتا ہے کہ “کئی لوگوں کے ساتھ مشاورت کے بعد آج ہم نے بوجھل دل کے ساتھ 24 نیوز چینل بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے”۔

میسج میں تحریر تھا کہ “میں روز روز کی وفاقی حکومت کی بلیک میلنگ سے تھک گیا ہوں۔ ہر سیکنڈ، ہر روز پیمرا کے غیر قانونی نوٹسز کے خلاف قانونی فیسیں بھی بھر رہا ہوں۔ مجھے معلوم ہے کہ یہ ہم میں سے کسی کے لیے بھی آسان نہیں ہو گا، لیکن ایک دن ہم واپس آئیں گے، انشاء اللہ، مہربانی کر کے 24 نیوز کے تمام 965 ملازمین کے لیے ایک ماہ کا نوٹس تیار کریں”۔

اس بارے میں ڈائریکٹر نیوز 42 نیوز خرم کلیم نے بات کرتے ہوئے کہا کہ ایک ایسی صورت حال میں جہاں ملک بحرانوں کا شکار ہے، وہاں مزید ایک ہزار لوگوں کو بیروزگار کر دیا گیا ہے۔

چیئرمین پیمرا بے قصور، اصل مجرم کوئی اور ہے: چینل انتظامیہ

اس گروپ سے منسلک ڈائریکٹر نیوز 42 نیوز خرم کلیم نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں چینل کی بندش کو میڈیا کی آواز دبانے کا حربہ قرار دیا اور انکشاف کیا کہ چینل انتظامیہ نے کئی بار پیمرا سے رجوع کیا، لیکن ہمیشہ تاخیری حربے استعمال کیے گئے اور نتیجہ یہ نکلا کہ ایک ہزار ملازمین کو نوکری سے فارغ کرنا پڑا۔

انہوں نے الزام عائد کیا کہ حکومت چینل سے ناخوش تھی۔ عمران خان کے بارے عوامی رائے بتانا اور ان کی ناکام پالیسوں بارے بتانا چینل کا جرم بنا۔ اگر پیمرا کو کسی خبر کے بارے اعتراض تھا تو اس پر سماعت ہو سکتی ہے، جرمانہ ہو سکتا ہے اور معافی بھی ہو سکتی ہے، لیکن یہاں تو چینل کا لائسنس ہی منسوخ کر دیا گیا اور یہ کوئی پہلی مرتبہ نہیں ہوا، اس سے قبل کئی چینل بشمول نیو ٹی وی کے ساتھ بھی ایسا ہو چکا ہے۔

انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف کی حکومت جس دن آئی تھی، اس دن ہی ان کی نیت واضح ہو گئی تھی۔ فواد چودھری جب وزیر اطلاعات تھے، تب انہوں نے تو والدین تک کو یہ کہہ دیا تھا کہ اپنے بچوں کو ماس میڈیا کی تعلیم مت دیں، کیونکہ پاکستان میں سیٹلائیٹ چینل کا کوئی مستقبل نہیں اور پاکستان میں صرف تفریحی چینل چلیں گے۔

خرم کلیم نے کہا کہ پیمرا جب بھی کسی ٹی وی چینل کے خلاف ایکشن لیتا ہے تو جمعے کے دن لیتا ہے تاکہ کوئی بھی فوراً عدالت میں نہ جا سکے۔

انہوں نے چیئرمین پیمرا کو بے قصور قرار دیتے ہوئے کہا کہ سلیم بیگ کے پاس شاید لائسنس منسوخ کرنے اتھارٹی نہیں، وہاں جو حکومتی اہل کار گئے تھے، انہوں نے اپنے حق میں فیصلہ لیا اور شام کو لائسنس منسوخ کروا کے اٹھے۔ حکومتوں کا کام ہوتا ہے روزگار فراہم کرنا، لیکن یہاں سب الٹا چل رہا ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب شرح نمو منفی ہو گئی ہے اور معشیت دباؤ کا شکار ہے، اس وقت میں ایک ہزاروں کو لوگوں کے بےروزگار کرنے کی پالیسی سمجھ سے بالاتر ہے۔

بی بی اے کا موقف

دوسری جانب پاکستان براڈ کاسٹرز ایسوسی ایشن نے 24 نیوز چینل کا لائسنس معطل کرنے کی مذمت کی ہے۔ پی بی اے کا کہنا ہے کہ ایک طرف پیمرا مختلف کیٹیگریز میں نئے لائسنسز کا اجرا کر رہا ہے، جس کی موجودہ اینالاگ سسٹم میں گنجائش نہیں ہے۔ دوسری طرف پہلے سے آن ایئر چینلز کے لائسنس پروسیجرل ایشوز کی وجہ سے معطل کر رہا ہے۔ چینل کی بندش کے خلاف پیمرا کے باہر صحافیوں نے سوموار کو احتجاج بھی کیا۔ مظاہرین نے پیمرا دفتر کے باہر نعرے بازی بھی کی اور لائسنس معطلی کا فیصلہ واپس لینے کا مطالبہ کیا۔

سیاسی جماعتوں کی مذمت

پاکستان حزب اختلاف اور حکومت کی اتحادی جماعت پاکستان مسلم لیگ ق نے بھی چینل کی بندش کے حکومتی فیصلے کی مذمت کی ہے۔ صوبہ پنجاب اور وفاق میں حکومت کی اتحادی جماعت مسلم لیگ ق کے صدر چودھری شجاعت حسین نے وزیراعظم کو خط میں کہا کہ حکومت اور میڈیا کے درمیان قربت کی بجائے فاصلے پیدا کروانے والوں کا نقصان نہیں بلکہ نقصان حکومت کا ہو گا۔ میڈیا ریاست کا چوتھا ستون ہے۔ ریاست کے استحکام کے ستون کا مستحکم ہونا ضروری ہے۔ میڈیا کے ساتھ محاذآرائی کسی بھی صورت مناسب نہیں۔

انہوں نے مطالبہ کیا کہ 24 نیوز کا لائسنس معطل کرنے کے اقدام کو فوری واپس لیا جائے تاکہ میڈیا ورکرز کو بے روزگاری سے بچایا جا سکے، کیونکہ آئین و قانون کی سر بلندی ہی تمام مسائل کا حل ہے۔

چیئرمین پی پی پی بلاول بھٹو زرداری نے چینل 24 کی بندش کے فیصلے کو آزادی صحافت پر حملہ قرار دیا ہے۔ اپنے بیان میں انہوں نے کہا کہ سلیکٹڈ حکومت آزادی اظہار کا گلا گھونٹ کر اپنی نااہلی پر پردہ ڈالنا چاہتی ہے۔ فاشسٹ حکومت کی جانب سے ناپسندیدہ اینکرز اور رپورٹرز کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

انہوں نے الزام عائد کیا کہ چینل مالکان پر نام نہاد مثبت رپورٹنگ کے لئے دباؤ ڈالا جا رہا ہے، جو اختلاف کا اظہار کرے، کٹھ پتلی حکومت اس کی آواز کو قتل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ حکومت فی الفور چینل 24 پر سے پابندی کے فیصلے کو واپس لے۔

قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے کہا کہ چینل کی بندش کا مقصد سچ کی آواز کو دبانا ہے۔ انہوں نے حکومتی اقدام کو آزادی صحافت پر حملہ قرار دیا اور کہا کہ یہ اقدام قابل مذمت ہے۔

پاکستان تحریک انصاف کے دور حکومت یہ پہلا چینل نہیں جو بند ہوا ہے۔ نیو ٹی وی کے لائسنس کا معاملہ اس وقت سامنے آیا جب رواں سال 30 اپریل کو پیمرا نے نیو ٹی وی کا لائسنس بھی معطل کیا۔ اس سے پہلے بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض کا چینل آپ نیوز بھی مالی مشکلات کی وجہ سے بند کر دیا گیا تھا۔

XS
SM
MD
LG