واشنگٹن —
نائجیریا کے صدر گُڈلک جوناتھن کے ایک مشیر کا کہنا ہے کہ صدر ملک کے مذہبی انتہا پسند گروہ، بوکو حرم کے خلاف جاری فوجی کارروائی میں حاصل ہونے والی پیش رفت سے مطمئن ہیں۔
مشیر کے بقول، اُن پناہ گاہوں پر فضائی اور بَری حملے جاری رکھے گئے ہیں، جہاں مختلف دہشت گرد گروہ بڑی تعداد میں جمع تھے۔
ڈوین اُکوپے نےکہا کہ اُنھیں موصولہ تازہ ترین رپورٹ میں تقریباً 55 افراد کے ہلاک ہونے کی خبر دی گئی ہے، جب کہ ہفتے کو کم از کم 20افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اس کے علاوہ، مزید 55افراد کو اُس وقت پکڑا گیا تھا جب وہ اپنی پناہ گاہوں سے بھاگنے کی کوشش کر رہے تھے۔
مشیر نے کہا کہ، ’کارروائی کے نتائج بہت ہمت افزا ہیں، اور، ہمیں توقع ہے کہ اگر اِسی قسم کی کارروائیاں جاری رہیں، تو بہت جلد ہم مکمل کامیابی سے ہم کنار ہوں گے‘۔
اکوپے، مسٹر جوناتھن کے مشیر خصوصی برائے عوامی معاملات ہیں۔
اُنھوں نے کہا کہ فوجی کارروائی کا مقصد بوکو حرم کی بغاوت سے انسانی زندگی اور ملکیت کو درپیش خطرات دور کرنا ہے۔
اُنھوں نے بتایا کہ صدر نے فوج اور سلامتی سے متعلق اہل کاروں کو یہ اختیار دے دیا ہے کہ قانون کی حکمرانی کو یقینی بنانے کے لیے درکار تمام ضروری اقدام کیا جائے۔
تاہم، انسانی حقوق کے کچھ گروپوں نے فوج پر بے تحاشہ طاقت کے استعمال کا الزام لگایا ہے، جس کے باعث، بقول اُن کے، انسانی حقوق کی سریح خلاف ورزیاں سرزد ہوئی ہیں۔
’ہیومن رائٹس واچ‘ کا کہنا ہے کہ بوکو حرم کے تشدد کے نتیجے میں 2009ء سے اب تک اندازاً 3000افراد ہلاک ہوچکے ہیں، جن واقعات میں ہلاک ہونے والے فوجی بھی شامل ہیں۔
اکوپے نے کہا کہ سلامتی کے بحران کا الزام فوج پر نہیں دھرا جا سکتا۔
مشیر نے اس نکتہ چینی کو بھی مسترد کیا جس میں کہا گیا تھا کہ بوکو حرم کے خلاف فوج تعینات کرنے کے بعد انتظامیہ نے ملک کے شمالی علاقے پر اعلانِ جنگ کر دیا ہے۔
مشیر کے بقول، اُن پناہ گاہوں پر فضائی اور بَری حملے جاری رکھے گئے ہیں، جہاں مختلف دہشت گرد گروہ بڑی تعداد میں جمع تھے۔
ڈوین اُکوپے نےکہا کہ اُنھیں موصولہ تازہ ترین رپورٹ میں تقریباً 55 افراد کے ہلاک ہونے کی خبر دی گئی ہے، جب کہ ہفتے کو کم از کم 20افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اس کے علاوہ، مزید 55افراد کو اُس وقت پکڑا گیا تھا جب وہ اپنی پناہ گاہوں سے بھاگنے کی کوشش کر رہے تھے۔
مشیر نے کہا کہ، ’کارروائی کے نتائج بہت ہمت افزا ہیں، اور، ہمیں توقع ہے کہ اگر اِسی قسم کی کارروائیاں جاری رہیں، تو بہت جلد ہم مکمل کامیابی سے ہم کنار ہوں گے‘۔
اکوپے، مسٹر جوناتھن کے مشیر خصوصی برائے عوامی معاملات ہیں۔
اُنھوں نے کہا کہ فوجی کارروائی کا مقصد بوکو حرم کی بغاوت سے انسانی زندگی اور ملکیت کو درپیش خطرات دور کرنا ہے۔
اُنھوں نے بتایا کہ صدر نے فوج اور سلامتی سے متعلق اہل کاروں کو یہ اختیار دے دیا ہے کہ قانون کی حکمرانی کو یقینی بنانے کے لیے درکار تمام ضروری اقدام کیا جائے۔
تاہم، انسانی حقوق کے کچھ گروپوں نے فوج پر بے تحاشہ طاقت کے استعمال کا الزام لگایا ہے، جس کے باعث، بقول اُن کے، انسانی حقوق کی سریح خلاف ورزیاں سرزد ہوئی ہیں۔
’ہیومن رائٹس واچ‘ کا کہنا ہے کہ بوکو حرم کے تشدد کے نتیجے میں 2009ء سے اب تک اندازاً 3000افراد ہلاک ہوچکے ہیں، جن واقعات میں ہلاک ہونے والے فوجی بھی شامل ہیں۔
اکوپے نے کہا کہ سلامتی کے بحران کا الزام فوج پر نہیں دھرا جا سکتا۔
مشیر نے اس نکتہ چینی کو بھی مسترد کیا جس میں کہا گیا تھا کہ بوکو حرم کے خلاف فوج تعینات کرنے کے بعد انتظامیہ نے ملک کے شمالی علاقے پر اعلانِ جنگ کر دیا ہے۔