پاکستان کے وزیر داخلہ چوہدری نثار نے اسلام آباد میں حال ہی میں مذہبی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے مظاہرین کے دھرنے کے بعد کہا ہے کہ وفاقی دارالحکومت میں مظاہروں اور سیاسی جلسوں کی اجازت نہیں ہو گی۔
واضح رہے کہ گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے قتل پر سزائے موت پانے والے ممتاز قادری کے حامیوں نے 27 مارچ کو اسلام آباد میں پارلیمنٹ کی عمارت سے کچھ فاصلے پر دھرنا دیا تھا، اور اس دوران مشتعل مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپیں بھی ہوئیں جب کہ مظاہرے میں شامل افراد نے املاک کو بھی نقصان پہنچایا گیا۔
چوہدری نثار نے پیر کو اسلام آباد میں ایک نیوز کانفرنس میں کہا کہ نا تو پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے ’ڈی چوک‘ اور نا ہی ایف نائین پارک میں کسی طرح کے سیاسی اجتماع کی اجازت دی جائے گی۔
’’ہم پہلے ہی اسلام آباد میں تمام جلسے اور جلوسوں پر پابندی لگا چکے ہیں، اس لیے ڈی چوک اور ایف نائین پارک میں کسی قسم کا سیاسی اجتماع نہیں ہو گا۔‘‘
اُنھوں نے کہا کہ اس معاملے پر تمام سیاسی جماعتوں سے بھی مشاورت کی جائے گی۔
’’مجھے بتایا جائے کہ کیا مجبوری ہے، اسلام آباد میں (جلسہ) کرنے کی۔ ہم اس پرایک تجویز لے کر جا رہے ہیں کہ کہاں اسلام آباد میں جلسے ہوں گے ۔۔۔ اس پر پہلے کابینہ میں اور اس کے بعد باقی پارٹیوں سے مشاورت ہو گی کیونکہ باقی سیاسی جماعتیں بھی اسی طرح فریق ہیں جس طرح حکومت فریق ہے۔۔۔ جس طرح حکومت پر ذمہ داری ہے اس طرح تمام سیاسی پارٹیوں پر بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اسلام آباد کے شہریوں کے حقوق، یہاں کی کاروباری برادری کے حقوق اور اسلام آباد شہر کی عزت کا دنیا میں تحفظ کریں۔‘‘
تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے اپنی جماعت کے 20 ویں یوم تاسیں پر 24 اپریل کو اسلام آباد کے ’ایف نائین‘ پارک میں جلسے کا اعلان کر رکھا ہے۔
وزیر داخلہ کے بیان کے باوجود پیر کو تحریک انصاف کے اعلیٰ سطحی اجلاس کے بعد عمران خان نے کہا کہ وہ 24 اپریل کو اسلام آباد میں جلسہ ضرور کریں گے۔
’’میں یہ واضح کردوں کہ میں کوئی انتشار نہیں چاہتا، کوئی لڑائی نہیں چاہتے۔ چوہدری نثار کا بیان تھا کہ ڈی چوک میں کسی کو جلسہ کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔۔ ہم ڈی چوک نہیں جا رہے ہیں، حالانکہ ہماری ساری پارٹی ڈی چوک جانا چاہتی۔ لیکن ایف نائین پارک میں ہم جائیں گے۔‘‘
عمران خان کی جماعت تحریک انصاف پاناما لیکس کے معاملے پر حکومت کے خلاف متحرک ہے اور اُنھوں نے چیف جسٹس کی زیر صدارت ایک کمیشن کی تشکیل کا مطالبہ کر رکھا ہے تاکہ اس معاملے کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کرائی جائیں۔
اُدھر پاکستان میں پیر کو پارلیمان کے مشترکہ اجلاس کے آغاز پر ایک مرتبہ پھر پاناما لیکس کا معاملے موضوع بحث رہا اور حزب مخالف کی جماعت پیپلز پارٹی کے قائدین کی طرف سے وزیراعظم نواز شریف کو ایک مرتبہ پھر ہدف تنقید بنایا گیا۔
واضح رہے کہ پاناما کی ایک لافرم کی منظر عام پر آنے والی دستاویزات میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ دنیا بھر کے مختلف ممالک کے قائدین اور مالدار افراد نے ٹیکسوں سے بچنے کے لیے ’آف شور‘ کمپنیوں کا استعمال کیا اور ایسے افراد کی فہرست میں وزیراعظم نواز شریف کی بیٹی مریم نواز کے علاوہ اُن کے دو بیٹوں حسین اور حسن نواز کے نام بھی سامنے آئے کہ اُنھوں نے بھی ’آف شور‘ کمپنیوں کے ذریعے لندن میں جائیداد بنائی۔
اسی تناظر اتوار کو ٹیلی ویژن کے ذریعے ایک خطاب میں تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے وزیراعظم نواز شریف کے استعفیٰ کا بھی مطالبہ کیا تھا۔
گزشتہ منگل کو وزیراعظم نوازشریف نے قوم سے خطاب میں عدالتی کمیشن بنانے کا اعلان کیا تھا لیکن تاحال یہ کمیشن نہیں دیا گیا اور حکومت مختلف ناموں پر غور کر رہی ہے۔
عمران خان حکومت کے مجوزہ کمیشن کی تشکیل کو مسترد کر چکے ہیں۔
یاد رہے کہ وزیراعظم نواز شریف کے بیٹے حسین نواز کہہ چکے ہیں کہ بیرون ملک جائیداد کے حوالے اُنھوں نے کوئی غیر قانونی کام نہیں کیا۔