اسلام آباد ہائی کورٹ نے پاکستان تحریکِ انصاف کے چیئرمین اور سابق وزیرِ اعظم عمران خان کی اٹک جیل سے اڈیالہ جیل منتقلی کی درخواست پر سماعت مزید دو دن کے لیے ملتوی کر دی ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے بدھ کودرخواست کی سماعت کی جب کہ عمران خان کے وکیل شیر افضل مروت عدالت میں پیش ہوئے۔
عدالت نے استفسار کیا کہ عمران خان کو اٹک جیل میں کیوں رکھا گیا ہے؟جس پر ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے عدالت کو بتایا کہ سیکیورٹی رسک کی وجہ سے رکھا گیا۔
انہوں نے سابق وزیرِ اعظم کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ نواز شریف بھی اٹک جیل میں رہے ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ نواز شریف نے منتقلی کی استدعا کی تھی اور وہ کوٹ لکھپت جیل چلے گئے تھے۔
تحریکِ انصاف کے وکیل شیر افضل مروت ایڈووکیٹ نے اس پر کہا کہ اٹک جیل میں صرف سی کلاس ہے۔اور کوئی وجہ نہیں کہ چیرمین پی ٹی آئی کو اٹک جیل میں رکھا جائے۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ عمران خان کو سنائی گئی سزا اپنی جگہ ہے۔ لیکن وہ سابق وزیرِ اعظم ہیں، اس لیے ان کے جو حقوق ہیں وہ انہیں ملنے چاہیئں۔
عدالت نے استفسار کیا کہ کسی کو دوسری جیل بھیجنا ہو تو یہ فیصلہ کون کرے گا؟
پی ٹی آئی کے وکیل نےکہا کہ عدالت کو یہ بھی دیکھنا ہے کہ عمران خان کو اٹک جیل میں رکھنے کے پیچھے کوئی بدنیتی تو نہیں۔
انہوں نے کہاکہ عمران خان کو اٹک جیل میں ایک چھوٹے سیل میں رکھا گیا ہے جہاں مچھر اور دیگر حشرات ہیں جب کہ بارش کا پانی بھی اس سیل کے اندر آ گیا تھا۔
ایڈووکیٹ شیر افضل مروت نے کہا کہ نواز شریف نے بھی جیل میں اے کلاس کی سہولیات لی تھیں۔ عمران خان بھی اے کلاس سہولیات کے حق دار ہیں۔
جیل میں سہولیات کی فراہمی کی درخواست پر سماعت
اسلام آباد ہائی کورٹ نے عمران خان کو جیل میں سہولیات کی فراہمی سے متعلق دائر درخواست پر بھی سماعت کی۔
تحریکِ انصاف کے وکیل شیر افضل مروت ایڈووکیٹ نے کہا کہ عدالتی حکم کے مطابق وہ منگل کو اٹک جیل گئے لیکن جیل حکام نے عمران خان سے ملنے کی اجازت نہیں دی۔اس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا جیل میں ملاقات کا کوئی وقت ہوتا ہے؟
پی ٹی آئی کے وکیل نے آگاہ کیا کی جیل میں قیدی سے ملاقات کے لیے چھ بجے تک وقت ہوتا ہے۔
تحریکِ انصاف کے وکیل نے عدالت میں ایف آئی اے کی جانب سے مبینہ طور پر ہراساں کیے جانے کا معاملہ بھی اٹھایا۔
وکیل کا کہنا تھا کہ وفاقی تحقیقاتی ادارے( ایف آئی اے) نے عمران خان کے ایک وکیل کو طلب کیا تھا جب کہ آج عمران خان کے وکیل خواجہ حارث کو بلایا گیا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ان کے علم میں یہ معاملہ آیا ہے۔ تحقیقات کا مطلب کسی کو ہراساں کرنا نہیں ہوتا۔ وہ ایڈمنسٹریٹر سائیڈ پر اس معاملے کو دیکھ لیں گے۔
عدالت کا کہنا تھا کہ ایک چیز کا خیال رکھا جائے کہ قانون کی خلاف ورزی نہ ہو۔
تحریکِ انصاف کے وکیل نے عدالت سے کیس کی مزید سماعت جمعرات کو کرنے کی استدعا کی تاہم اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے کیس کی مزید سماعت 11 اگست جمعے تک ملتوی کر دی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے وفاق اور پنجاب حکومت سے بھی جمعے تک جواب طلب کر لیا ہے۔
واضح رہے کہ اسلام آباد کی سیشن عدالت نے گزشتہ ہفتے توشہ خانہ کیس میں عمران خان کو مجرم قرار دیتے ہوئے تین سال قید کی سزا سنائی تھی اور وہ اٹک جیل میں قید ہیں۔ عمران خان کو عدالت سے سزا کے بعد ان پر کوئی بھی عوامی عہدہ رکھنے پر پانچ سال کی قدغن لگ گئی ہے۔
وکلا کو ہراساں کرنے کا معاملہ، اسلام آباد بار کا یوم سیاہ کا اعلان
اسلام آباد سے وائس آف امریکہ کے نمائندے عاصم علی رانا کے مطابق وکلا کو مبینہ طور پر ہراساں کیے جانے کے معاملے پر اسلام آباد بار ایسوسی ایشن نے جمعرات کو یومِ سیاہ منانے کا اعلان کیا ہے۔
اسلام آباد بار ایسوسی ایشن کے صدر قیصر امام اور سیکریٹری رائے اسد نوید بھٹی نے اعلامیے میں کہا ہے کہ اسلام آباد بار وکلا کو ہراساں کرنے کی شدید مذمت کرتی ہے۔ جمعرات کو یومِ سیاہ پر وکلا بازوؤں پر سیاہ پٹیاں باندھیں گے جب کہ وکلا کو ہراساں کرنے کے اقدامات کو مختلف عدالتوں میں چیلنج کیا جائے گا۔
اعلامیے کے مطابق بابر اعوان، خواجہ حارث، شیر افضل مروت ، نعیم حیدر سمیت دیگر وکلا کو ہراساں کیا جا رہا ہے۔
توشہ خانہ کیس میں سزا معطلی کی درخواست پر سماعت آئندہ ہفتے ہونے کا امکان
اسلام آباد ہائی کورٹ نے پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین اور سابق وزیرِ اعظم عمران خان کے کی سزا معطل کرنے کی درخواست پر سماعت آئندہ ہفتے کرنے کا عندیہ دیا ہے۔
بدھ کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس طارق محمود جہانگیری نے درخواست پر سماعت کی۔
تحریکِ انصاف کے وکلا نے استدعا کی کہ کیس جمعرات کو سماعت کے لیے مقرر کی جائے۔
جس پر چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ پہلے بھی بتایا ہے کہ کل سماعت نہیں ہو سکتی۔ انہوں نے وکلا سے کہا کہ پریشان نہ ہوں۔ یہ معاملہ ججوں کی چھٹیوں کے بعد تک نہیں جائے گا۔ چار پانچ دن میں کیس سماعت کے لیے لگ جائے گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ سزا معطلی اور ضمانت کے کیسز چھٹیوں میں مقرر کیے جا رہے ہیں۔
وائس آف امریکہ کے نمائندے عاصم علی رانا کے مطابق سماعت کے دوران عمران خان کے وکیل خواجہ حارث نے اپنے کلرک کو مبینہ حراست میں لیے جانے کا معاملہ بھی اٹھایا۔ ان کے بقول ’’میرے کلرک کو سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ میں مبینہ طور پر ہراساں کیا گیا۔‘‘
خواجہ حارث نے اپنے ایسوسی ایٹ کے واٹس ایپ وائس نوٹ کا ٹرانسکرپٹ ججز کے سامنے رکھا۔
توشہ خانہ کیس میں عمران خان کو سزا دیے جانے کے معاملے پر خواجہ حارث نے ٹرائل کورٹ میں سماعت پر بھی سوالات اٹھائے۔
خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ ٹرائل کورٹ کے جج نے انتہائی جلد بازی میں ٹرائل چلایا۔ ہائی کورٹ نے دو درخواستوں پر سات دن میں فیصلہ کرنے کا کہا جب کہ ٹرائل جج نے تیسرے ہی دن فیصلہ کر دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ آخری دن سپریم کورٹ، ہائی کورٹ اور احتساب عدالت میں مصروف تھے۔
خواجہ حارث نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج عامر فاروق سے استدعا کی کہ عمران خان کی سزا معطل کرنے کی درخواست جلد سماعت کے لیے مقرر کی جائے۔
جس پر چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ کیس کی سماعت کل ممکن نہیں ہے۔ اس کیس کو جلد لگا دیں گے۔ چار پانچ دن میں کیس مقرر ہو جائے گا۔
بعد ازاں عدالت نے کیس کی مزید سماعت ملتوی کر دی۔
فورم