پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان نے کالعدم شدت پسند تنظیم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے ساتھ مذاکرات کی تصدیق کی ہے جس کے بعد پاکستان کے بعض سیاسی حلقوں کی جانب سے جہاں اُنہیں تنقید کا سامنا ہے وہیں بعض حلقے اس کا خیر مقدم کر رہے ہیں۔
خیال رہے کہ چند روز قبل ترک نشریاتی ادارے 'ٹی آر ٹی' کو دیے گئے انٹرویو میں وزیرِ اعظم عمران خان نے کہا تھا کہ وہ کسی بھی مسئلے کے فوجی حل کے قائل نہیں، لہذٰا تحریکِ طالبان سے منسلک بعض افراد کے ساتھ حکومت مذاکرات کر رہی ہے۔
عمران خان کے اس بیان کے بعد ٹی ٹی پی کے ایک کمانڈر حافظ گل بہادر کی اپنے حامیوں کے ہمراہ 20 روزہ جنگ بندی کی اطلاعات بھی سامنے آئی تھیں، تاہم ٹی ٹی پی نے ایک بیان میں افواجِ پاکستان پر حملے جاری رکھنے کا اعلان کیا تھا۔
دیگر چھوٹی چھوٹی تنظیموں یا انفرادی طور پر حصہ لینے والے جنگجو کمانڈروں کی جانب سے ابھی تک وزیرِ اعظم عمران خان کے اس بیان پر کسی قسم کے ردِعمل سامنے نہیں آیا۔
شمالی وزیرستان کے مرکزی انتظامی مرکز میران شاہ سے تعلق رکھنے والے سینئر صحافی حاجی مجتبیٰ اور دوسرے بڑے قصبے میر علی سے تعلق رکھنے والے سماجی کارکن احسان داوڑ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں حافظ گل بہادر کی جانب سے جنگ بندی کی تصدیق کی ہے۔
کلعدم تحریک طالبان پاکستان کا مذاکرات کے حوالے سے اعلان
کالعدم شدت پسند تنظیم تحریک طالبان پاکستان نے یکم اکتوبر 2021 کو ترجمان کے ذریعے جاری کردہ بیان میں وزیرِ اعظم عمران خان کے بیان پر ردِعمل دیتے ہوئے کہا کہ تحریک طالبان پاکستان ایک منظم تحریک ہے جو گروپ بندی کا شکار نہیں ہے تحریک کی صرف ایک اجتماعی پالیسی ہے اس پالیسی سے کوئی بھی انحراف نہیں کر سکتا۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ تحریکِ طالبان پاکستان نے کہیں پر بھی فائربندی کا اعلان نہیں کیا۔
خیبر پختونخوا حکومت نے ابھی تک نہ تو وزیرِ اعظم عمران خان کی اس پیش کش اور نہ ہی حافظ گل بہادر کی جانب سے جنگ بندی کے مبینہ اعلان پر کوئی ردِعمل ظاہر کیا ہے۔
وزیرِ اعظم کی پیش کش کے بعد تشدد کے واقعات
حافظ گل بہادر کے اپنے وفادار ساتھیوں کو لکھے گئے خطوط یا ہدایات کے بعد شمالی وزیرستان کے جنوبی وزیرستان سے ملحقہ تحصیل رزمک کے علاقہ گڑیوم میں اتوار اور پیر کی درمیانی شب ایک چوکی پر حملہ کر کے ایک سیکیورٹی اہلکار کو ہلاک کر دیا گیا ہے۔
پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) نے اس واقعے کی تصدیق کی ہے اور کہا ہے کہ حملہ آوروں کے خلاف جوابی کارروائی کی گئی ہے، تاہم جوابی کارروائی کی مزید تفصیلات ابھی تک جاری نہیں کی گئی۔
کالعدم شدت پسند تنظیم تحریک طالبان پاکستان نے اس واقعے کی ذمے داری قبول کی ہے۔
میران شاہ سے تعلق رکھنے والے سینئر صحافی حاجی مجتبی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ شمالی وزیرستان کے تحصیل دتہ خیل میں اتوار کی رات نامعلوم سمت سے دو راکٹ فائر کیے گئے جو ایک بازار کے قریب ایک کھلے میدان میں گرے جس سے کوئی جانی و مالی نقصان نہیں ہوا۔ راکٹ حملے کے بعد سیکیورٹی فورسز نے علاقے کو گھیرے میں لے کر سرچ آپریشن شروع کر دیا۔
'حافظ گل بہادر 'گڈ طالبان' میں شمار ہوتے ہیں'
خیبرپختونخوا حکومت کے سابق سیکرٹری داخلہ اور ریٹائرڈ ایڈیشنل انسپکٹر جنرل سید اختر علی شاہ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ حافظ گل بہادر کا شمار ان عسکریت پسند کمانڈروں میں سرِ فہرست رہا ہے جو 2006 سے 2014 تک ہر وقت حکومت یا حکومتی عہدیداروں کے ساتھ مذاکرات کرتے رہے تھے اسی بنیاد پر ان کا شمار گڈ طالبان میں ہوتا ہے۔ لہذٰا پہلے ان سے بات ہو سکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ طالبان عسکریت پسندوں اور حکومت کے درمیان وزیرِ اعظم عمران خان کے بیانات کے مطابق بات چیت یا مفاہمت کا سارا دارومدار کالعدم ٹی ٹی پی کے سربراہ مفتی نور ولی محسود اور اس سے علیحدہ ہونے والے دھڑے جماعت الااحرار کے کمانڈر عبدالولی مہمند پر ہے، دونوں کی جانب سے ابھی تک اس پیش کش کو قبول نہیں کیا گیا ہے۔
حافظ گل بہادر کون ہیں؟
حافظ گل بہادر کا تعلق شمالی وزیرستان کے داوڑ قبیلے سے ہے وہ مولانا فضل الرحمان کی جمیعت علما اسلام (ف) سے بھی منسلک رہ چکے ہیں۔
حافظ گل بہادر کا نام عسکریت پسند کے طور پر 2005 میں اس وقت سامنے آیا جب جنوبی وزیرستان کے بعد شمالی وزیرستان کے سرکردہ قبائلی رہنماؤں کے گھات لگا کر قتل، سیکیورٹی فورسز اور سرکاری تنصیبات پر ہلاکت خیز حملوں کا سلسلہ شروع ہوا۔
بعدازاں پانچ ستمبر 2006 کو انہوں نے صوبائی حکومت کے ساتھ ایک معاہدہ کیا، جس کے تحت عسکریت پسندوں اور حکومت نے ایک دوسرے پر حملے نہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
کالعدم شدت پسند تنظیم تحریکِ طالبان پاکستان کے کمانڈر حکیم اللہ محسود کی یکم نومبر 2013 میں امریکی ڈرون حملے میں ہلاکت کے بعد حافظ گل بہادر اور حکومت کے درمیان تعلقات کشیدہ ہو گئے جس کے بعد حکومت نے 2014 میں شمالی وزیرستان میں آپریشن ضربِ عضب شروع کرنے کا اعلان کیا۔
اس آپریشن کے دوران بڑی تعداد میں قبائلیوں نے پاکستان کے دیگر اضلاع میں نقل مکانی کی۔ 2016 میں نقل مکانی کرنے والوں کی واپسی کے بعد حکومت اور حافظ گل بہادر کے درمیان رابطے دوبارہ بحال ہو گئے۔
البتہ ان رابطوں کی بحالی کے باوجود دونوں طرف سے کسی قسم کی جنگ بندی یا مصالحت کا معاہدہ ابھی تک سامنے نہیں آیا۔
سید اختر علی شاہ کہتے ہیں کہ حافظ گل بہادر کے عرصۂ دراز سے حقانی نیٹ ورک کے ساتھ مراسم ہیں اور یہی وجہ ہے کہ عمران خان نے انٹرویو کے دوران کہا کہ پاکستانی طالبان کے بعض گروہوں کے ساتھ افغان طالبان کی وساطت سے بھی مذاکرات ہو رہے ہیں۔