رسائی کے لنکس

امن کا نوبیل انعام حقوق کے لیے کوشاں یوکرینی عوام کے لیےہے، الیگزینڈرا ماتویچو کی وی او اے سے گفتگو


امن کے نوبیل انعام مشترکہ حقدار یوکرین کی شہری آزادیوں کی تنظیم ’یوکرینین ہیومن رائٹس آرگنائزیشن سینٹر فار سول لبرٹیز‘ کی چئرپرسن الیگزینڈرا ماتویچو کی وائس آف امریکہ سے گفتگو (تصویر: رائٹرز)
امن کے نوبیل انعام مشترکہ حقدار یوکرین کی شہری آزادیوں کی تنظیم ’یوکرینین ہیومن رائٹس آرگنائزیشن سینٹر فار سول لبرٹیز‘ کی چئرپرسن الیگزینڈرا ماتویچو کی وائس آف امریکہ سے گفتگو (تصویر: رائٹرز)

امن کے نوبیل انعام حاصل کرنے والی یوکرین کی شہری آزادیوں کے لیے سرگرم تنظیم کی چئرپرسن اولیکساندرا ماتویچو نے وائس آف امریکہ کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ایوارڈ یہ ایوارڈ ان تمام یوکرینی عوام کے لیے ہے، جو روس کے ساتھ جنگ آزادی اور جمہوری انتخاب کے حق، جینے اور ملک کی تعمیر کے حق کے لیے لڑ رہے ہیں ۔ایک ایسے ملک کے لیے جدو جہد کر رہے ہیں جہاں ہر انسان کے حقوق کا تحفظ ہو، حکومت جوابدہ ہو ۔ صدر بائیڈن نے یہ موقر انعام حاصل کرنے والوں کو امریکی عوام کی جانب سے مبارکباد پیش کی ہے۔

سال 2022 کے لیے امن کا نوبیل انعام مشترکہ طور پر یوکرین اور روس میں سرگرم دو انسانی حقوق کی تنظیموں اور بیلاروس سے تعلق رکھنے والے انسانی حقوق کے سرگرم کارکن کے نام رہا۔

نوبیل انعام کا فیصلہ کرنے والی سوئیڈش اکیڈمی کی جانب سے جمعے کو جاری کردہ اعلان کے مطابق بیلاروس سے تعلق رکھنے والے انسانی حقوق کے سرگرم کارکن ایلس بیالیٹسکی کو ان کی خدمات پر نوبیل انعام کا حق دار ٹھہرایا گیا ہے۔اسی کے ساتھ انسانی حقوق کی دو تنظیموں 'رشین ہیومن رائٹس آرگنائزیشن میموریل' اور یوکرین کی تنظیم 'یوکرینین ہیومن رائٹس آرگنائزیشن سینٹر فار سول لبرٹیز' کو بھی امن کے نوبیل انعام سے نوازا گیا ہے۔

نوبل پیس پرائز پوسٹر
نوبل پیس پرائز پوسٹر

انسانی حقوق کی تنظیم '’یوکرینین ہیومن رائٹس آرگنائزیشن سینٹر فار سول لبرٹیز‘، یوکرین میں جمہوریت کے استحکام اور انسانی حقوق کی بہتری کے لیے بنائی گئی تھی۔ اس تنظیم نے اپنی سرگرمیوں کے ذریعے یوکرینی حکومت پر دباؤ ڈالے رکھا کہ وہ ملک میں حقیقی جمہوریت کی بحالی یقینی بنائے۔

صدر جو بائیڈن نے ان سب کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا کہ’ اس سال کے نوبیل امن انعام یافتگان ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ جنگ کے تاریک دنوں میں بھی، دھمکیوں اور جبر کے باوجود، حقوق اور وقار کی مشترکہ انسانی خواہش کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔انہوں نے برسوں تک ، انسانی حقوق اور بنیادی آزادیوں کے لیے انتھک جدوجہد کی ہے، جس میں آزادی سے بات کرنے اور کھل کر تنقید کرنے کا حق شامل ہے۔‘

شہری آزادیوں کے مرکز کی چیئر پرسن اولیکساندرا نے یہ گراں قدر ایوارڈ حاصل کرنے پر، وائس آف امریکہ کی یوکرینی سروس کو دیے جانے والے ایک انٹرویو میں کہا کہ ہماری ٹیم کے لیے امن کا نوبل انعام جیتنا کافی غیر متوقع تھا۔ ۔ ہم اسے صرف انسانی حقوق کے لیے اپنے کام یعنی پورے یوکرین میں سنٹر فار سول لبرٹیز کے کام کےلیےہی ایک انعام تصور نہیں کرتے ۔

انہوں نے کہا:

’’بلکہ سب سے پہلے، یہ ایوارڈ ان تمام یوکرینی عوام کے لیے ہے، جو روس کے ساتھ یہ جنگ آزادی اور جمہوری انتخاب کے حق، جینے اور ملک کی تعمیر کے حق کے لیے لڑ رہے ہیں ۔ایسا ملک جہاں ہر انسان کے حقوق کا تحفظ ہو، حکومت جوابدہ ہو ، پولیس طلباء کے پر امن مظاہرے منتشر نہ کر سکے، اور اس کی ہم بھاری قیمت ادا کر رہے ہیں۔‘‘

ایوارڈ کمیٹی کے مطابق اس برس امن کا نوبیل انعام حاصل کرنے والی شخصیت اور تنظیمیں کئی برسوں سے انسانی حقوق کے لیے اپنے اپنے ملکوں میں زبردست کام کر رہی ہیں۔ ان تنظیموں نے تنقید کرنے کی حوصلہ افزائی کے علاوہ اپنے شہریوں کے بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے کام کیا ہے۔

ایلس بیالیٹسکی کا شمار بیلاروس کے اُن انسانی حقوق کے کارکنوں میں ہوتا ہے، جو اسی کی دہائی سے جمہوریت اور انسانی حقوق کا علم بلند کیے ہوئے ہیں۔

نوبیل انعام کمیٹی کے مطابق ایلس بیالیٹسکی نے 1996 میں ایک تنظیم قائم کی جو بعدازاں بیلاروس میں انسانی حقوق کی ایک بڑی تنظیم بن کر اُبھری اور اس نے ملک میں جمہوریت کی مضبوطی اور سیاسی قیدیوں کے حق میں آواز بلند کی۔ تنظیم نے سیاسی قیدیوں پر ہونے والے مبینہ تشدد کا ریکارڈ رکھنے کے علاوہ ان کی رہائی کے لیے مظاہروں کی بھی قیادت کی۔

برطانوی اخبار 'گارڈین' کے مطابق بیالیٹسکی کے ان اقدامات کے باعث اُنہیں ریاستی جبر کا بھی سامنا کرنا پڑا اور اُنہیں متعدد بار ان سرگرمیوں سے باز رہنے کی تنبیہ کی گئی۔ وہ 2020 سے بغیر کسی ٹرائل کے جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں۔ مشکلات اور آزمائشوں کے باوجود وہ اپنے عزم پر ڈٹے ہوئے ہیں۔

نوبیل انعام کی حق دار ٹھہرائی گئی تنظیم'رشین ہیومن رائٹس آرگنائزیشن میموریل' کی بنیاد 1987 میں سابق سوویت یونین میں انسانی حقوق کے کارکنوں نے رکھی تھی۔

ایوارڈ کمیٹی کے مطابق اس تنظیم کے قیام کے مقاصد میں سابق سوویت یونین کے دور میں اس کے زیرِ قبضہ علاقوں میں بڑے پیمانے پر ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا ریکارڈ رکھنا تھا جنہیں سوویت یونین چھپانا چاہتا تھا۔تنظیم نے چیچنیا میں جنگوں کے دوران روسی افواج کی جانب سے جنگی جرائم اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا ریکارڈ بھی مرتب کیا جس کی پاداش میں تنظیم کی چیچنیا برانچ کی ایک سرکردہ رُکن کو ان کے کام کی وجہ سے 2009 میں ہلاک کیا گیا۔

رواں برس فروری میں روس کے یوکرین پر حملے کے بعد تنظیم نے روس کی جانب سے یوکرین کے عوام کے خلاف جنگی جرائم کا ریکارڈ مرتب کیا۔

ان تنظیموں نے جنگی جرائم کا ریکارڈ رکھنے، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور طاقت کے غلط استعمال کی نشان دہی کے لیے غیر معمولی کاوشیں کی ہیں۔ ایوارڈ جیتنے والی شخصیت اور تنظیموں نے مل کر نہ صرف سول سوسائٹی کی اہمیت کو اُجاگر کیا ہے، بلکہ جمہوریت اور امن کے لیے بھی بہترین کام کیا ہے۔

واضح رہے کہ گزشتہ ایک صدی سے بھی زیادہ عرصے سے عالمی سطح پر معتبر سمجھنے جانے والے نوبیل انعام کے ساتھ 9 لاکھ ڈالر سے زائد رقم بھی بطور انعام دی جاتی ہے۔

دھماکہ خیز مواد ’ڈائنامائٹ‘ ایجاد کرنے والے سوئیڈش سائنس دان الفریڈ نوبیل کی وصیت کے بعد یہ انعام 1901 میں شروع کیا گیا تھا۔ اس کے بعد سے کچھ وقفوں اور دو عالمی جنگوں کے باعث آنے والے تعطل کے سوا یہ ایوارڈ ایک صدی سے زائد عرصے سے جاری ہے۔ہر سال یہ انعام سائنس، ادب اور امن کے فروغ جیسے شعبوں میں نمایاں خدمات انجام دینے والے افراد کو دیاجاتا ہے۔

نوبیل امن انعام ممتاز ترین ایوارڈز میں شامل ہے۔ انعام جیتنے والے کو ملنے والی انعامی رقم اس اعزاز کے بانی سوئیڈئش سائنس دان الفریڈ کے ترکے میں چھوڑے گئے اثاثوں سے ادا کی جاتی ہے۔ الفریڈ نوبیل کا انتقال 1895 میں ہوا تھا۔

XS
SM
MD
LG