فرانسیسی خاتون سائنس دان ایمانوئل چارپینٹیئر اور امریکی ماہر جینیفر اے ڈوڈنا کو 'جینوم ایڈیٹنگ' کا ایک طریقہ دریافت کرنے پر کیمسٹری کے نوبیل انعام کا فاتح قرار دیا گیا ہے۔
بدھ کو اپنے اعلان میں نوبیل جیوری نے کہا کہ اس طریقے کی بدولت محققین جانوروں اور پودوں کا ڈی این اے بھی تبدیل کر سکتے ہیں اور اس کے ذریعے والدین سے بچوں میں جینیاتی بیماریوں کی منتقلی بھی روکی جا سکتی ہے۔
جیوری کے مطابق اس ٹیکنالوجی نے سائنس کی دنیا میں انقلاب برپا کیا ہے اور یہ کینسر کے علاج میں بھی مددگار ثابت ہو رہی ہے۔
چارپینٹیئر نے 2011 میں اس ضمن میں 'کرسپر ٹیکنالوجی' کے نام سے طریقہ متعارف کرایا تھا جس کے تحت اُنہوں نے بیکٹریا کی سطح پر ایک نامعلوم مالیکیول دریافت کیا تھا جس کی مدد سے ڈین این اے کے خراب حصے کو الگ کر دیا جاتا ہے۔
خیال رہے کہ کسی بھی جان دار کی خصوصیات اس کے جینز کے مجموعے میں ہوتی ہیں جسے 'جینیوم' کہا جاتا ہے۔
اپنی تحقیق شائع کرنے کے بعد چارپینٹیئر نے ڈوڈنا کے ساتھ مل کر مزید تحقیق کی اور 2012 میں 'کرسپر سی اے ایس نائن' کے عنوان سے جین ایڈیٹنگ کے لیے ایک نئی تیکنیک متعارف کرائی۔
اس عمل کے ذریعے سائنس دانوں کو درست مقام سے ڈی این اے کو الگ کرنے میں مدد ملی۔ اس قبل دریافت ہونے والی ٹیکنالوجی میں غلطی کا احتمال رہتا تھا۔
دونوں خواتین سائنس دانوں میں گیارہ لاکھ ڈالرز کی انعامی رقم مساوی تقسیم کی جائے گی۔
اکیاون سالہ ایمانوئیل چارپینٹیئر اور 56 سالہ جینیفر اے ڈوڈنا کیمسٹری کے شعبے میں نوبیل انعام جیتنے والی چھٹی اور ساتویں خاتون ہیں۔ سن 1911 میں کیمسٹری کا پہلا نوبیل انعام دیا گیا تھا۔