بھارت کے الیکشن کمیشن کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے کہا ہے کہ بھارت کا کوئی بھی شہری جو نئی دہلی کے زیرِ انتظام کشمیر میں تجارت کی غرض سے مقیم ہو ، تعلیم حاصل کر رہا ہو یا کوئی اور خدمات انجام دے رہا ہو، ریاستی اسمبلی کے انتخابات میں ووٹ ڈالنے کا اہل ہے۔
چیف الیکٹورل افسر ہر دیش کمار نے سرمائی دارالحکومت جموں میں میڈیاسے گفتگو میں بتایا کہ جموں و کشمیر میں اپریل 2020 میں نیا اقامتی قانون متعارف کرایا گیا تھا، جس کی رو سے بعض شرائط کے تحت کسی بھی بھارتی شہری کو یہاں رائے دہندگان کی فہرست میں شامل کیا جا سکتا ہے۔
بھارت کی حکومت نے اگست 2019 میں نئی دہلی کے زیرِ انتظام کشمیر کی آئینی خود مختاری کو ختم کرکے ریاست کو براہِ راست وفاق کے کنٹرول والے دو حصوں میں تقسیم کیا تھا ۔ اس کے نو ماہ بعد جموں اور وادیٴ کشمیر کے لیے، جو اب یونین ٹریٹری آف جموں اینڈ کشمیر کہلاتے ہیں، ایک نیا قانونِ اقامت تشکیل دیا گیا جس نے سابقہ ریاست میں جس میں لداخ کا خطہ بھی شامل ہے جس نے 1927 سے لاگو '’سٹیٹ سبجکٹ لا‘ کی جگہ لے لی ۔
نئے قانونِ اقامت کے تحت جموں و کشمیرمیں سات سے 15 سال تک رہنے والا کوئی بھی شخص ڈومیسائل سرٹیفکیٹ یعنی مستقل اقامت کی سند حاصل کرنے کا حق دار ہے۔ یہ سند اسے جموں و کشمیر میں سرکاری نوکری اور دوسری مراعات حاصل کرنے کا اہل بنا دیتی ہے۔
اپریل 2020 میں بھارت کی وفاقی حکومت کی طرف سے جاری کیے گیے ایک نوٹیفکیشن کے مطابق کوئی بھی شخص جو جموں وکشمیر میں 15 سال تک رہائش پذیر رہا ہو یا جس نے یہاں سات برس تک تعلیم حاصل کی ہو اور دسویں اور بارہویں جماعت کے امتحانات میں یہاں قائم کسی ادارے سے حصہ لیا ہو، وہ ڈومیسائل سرٹیفکیٹ کا حق دار اور جموں وکشمیر میں سرکاری نوکریوں کے لیے درخواست دینے کا اہل ہوگا۔
وفاقی حکومت کے وہ حکام ، سروسز افسران ، بینک ملازمین ، قومی سطح کی جامعات سے منسلک اشخاص وغیرہ، جنہوں نے کشمیر میں 10 برس تک ملازمت کی ہو، کشمیر کا ڈومیسائل حاصل کرسکتے ہیں۔
علاوہ ازیں مذکورہ افراد کے بچے بھی اقامتی سند حاصل کرنے کے اہل ہوں گے- جموں و کشمیر ریلیف اینڈ ریہیبلٹیشن کمشنر (مہاجر) کے ذریعے تارکین وطن کے طور پر رجسٹرڈ افراد کو بھی اس زمرے میں شامل کیا گیا ہے۔اب ان تمام لوگوں کو رائے دہندگان کی فہرست میں شامل ہونے کا حق دار بھی بنایا جارہا ہے۔
لگ بھگ 25 لاکھ نئے رائے دہندگان کا اندراج
ہردیش کمار نے کہا کہ جموں و کشمیر میں اس وقت رائے دہندگان کی فہرستوں میں نظرِ ثانی کا کام تیزی سے جاری ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پانچ اگست 2019 کے بعد شروع کیا گیا یہ کام 25 نومبر کو مکمل ہوگا اور توقع ہے کہ 20 سے 25 لاکھ تک شہریوں کو پہلی بار رائے دہندگان کی فہرستوں میں شامل کیا جائے گا۔
ہردیش کمار کے مطابق ان میں رواں برس یکم اکتوبر کو 18 سال کی عمر تک پہنچنے والے نوجوان بھی شامل ہوں گے۔
ان فہرستوں کے حوالے سے انہوں نے کہاکہ رائے دہندگان کی فہرستوں پر نظرِ ثانی یکم جنوری 2019 کے بعد پہلی بار ہو رہی ہے۔ ان فہرستوں میں بڑے پیمانے پر تبدیلیوں کی توقع ہےکیوں کہ ساڑھے تین برس کے عرصے کے دوران نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد ووٹر بننے کے لیے عمر کی مقررہ حد تک پہنچ گئی ہے یا اسے پار کرگئی ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ آئین کی دفعہ370 کی منسوخی کے بعد کئی لوگ جنہیں یہاں ووٹ ڈالنے کا حق حاصل نہیں تھا اب ایسا کرسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ کوئی بھی ایسا شخص جو یہاں عمومی طور پر رہائش پذیر ہے، چاہے کاروبارکے سلسلے میں ، تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے یا کوئی ڈیوٹی انجام دے رہا ہو، اپنے آپ کوترمیم شدہ عوامی نمائندگی ایکٹ کے تحت رائے دہندگان کی فہرست میں شامل کراسکتا ہے۔
انہوں نے اعداد و شمار بتاتے ہوئے کہا کہ پرانی ووٹر لسٹ کے مطابق جموں و کشمیر میں رائے دہندگان کی کل تعداد 76 لاکھ کے لگ بھگ ہے جب کہ اس وقت 18 سال یا اس سے زائد عمر کے شہریوں کی تعداد بڑھ کر 98 لاکھ ہوگئی ہے۔ اندازے کے مطابق 20 سے 25 لاکھ نئے ووٹرز کو ترمیم شدہ فہرستوں میں شامل کیا جائے گا۔
حزبِ اختلاف کا اظہارِ برہمی
حزبِ اختلاف کی جماعتوں نے غیر مقامی شہریوں کو جموں و کشمیر کے اسمبلی اور پارلیمانی انتخابات میں ووٹ ڈالنے کا حق دار بنانے پر شدید ردِ عمل ظاہر کیا ہے اور الزام لگایا ہے کہ اس کا مقصد جہاں ایک طرف نئی دہلی میں برسرِ اقتدار بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کو سیاسی فائدہ پہنچانا ہے، وہیں جموں و کشمیر کے حقیقی باشندوں کو مزید بے اختیار اور حق رائے دہی کے معاملے میں بے دست و پا بنانا ہے ۔
حزبِ اختلاف کی جماعتوں کے مطابق اس طرح کے دوسرے اقدامات مسلم اکثریتی ریاست کی آبادی کی شرح کو تبدیل کرنے کی کوششوں کا ایک حصہ ہے، جن کی پشت پناہی بی جے پی کی سرپرست تنظیم راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کر رہی ہے اوریہ ان دونوں کے دیرینہ ہندوتوا ایجنڈے میں شامل ہے۔
سابق وزیرِ اعلیٰ اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کی صدر محبوبہ مفتی نے جمعرات کو سرینگر میں پریس کانفرنس میں کہا کہ اس اقدام کے تحت 32 لاکھ غیر مقامی افراد کو جو بی جے پی سے وابستہ ہیں یا اس کے حامی تصور کیے جاتے ہیں، یہاں ووٹ ڈالنے کا حق دار بنایا جارہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ جمہوریت کے تابوت میں آخری کیل ٹھونکنے کے مترادف ہے۔ نصف دھاندلی جموں و کشمیر کے عوام پر حد بندی کمیشن کو مسلط کرکے کی گئی ۔ بھارتی عوام دیکھیں کہ کس طرح بی جے پی کی حکومت انتخابی سیاست اور خود کو فائدہ پہنچانے کے لیے آئین کا منفی استعمال کر رہی ہے اور جمہوریت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا رہی ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ جموں و کشمیر کے عوام نے 1947 میں بھارت کے ساتھ الحاق کی یہ سوچ کر توثیق کی تھی کہ یہ ایک جمہوری اور سکیولر ملک ہے۔لیکن جہاں ان 75 برس میں ملک کے باقی علاقوں میں جمہوریت کی ترویج ہوئی، کشمیر میں مختلف من مانے اقدامات اور فیصلوں کے ذریعے اس کی بیخ کنی کی جاتی رہی، جس کے ردِ عمل میں کشمیری نوجوانوں نے 1989 میں بندوق اٹھائی، جس کا خمیازہ آج بھی اٹھارہے ہیں۔
ان کے مطابق جس طرح سے جمہوریت کو یہاں مزید مسخ کیا جارہا ہے، اس کے ملک کے لیے اور زیادہ سنگین نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔
بھارت کی مارکس وادی کمیونسٹ پارٹی کے مقامی رہنما محمد یوسف تاریگامی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ چیف الیکٹورل افسر کا یہ بیان جموں و کشمیر کے عوام کی جائز خواہشات پر ایک کاری ضرب ہے۔ انہوں نے جو کچھ کہا ہے اس کے پیچھے یہاں کے لوگوں کو حقِ رائی دہی سے عملا" محروم کرنے کا مقصد کار فرما ہے۔ ریاست کی تنظیمِ نو قانون کے تحت حد بندی کمیشن کا قیام اور اس کی سفارشات اس خطے کی انتخابات میں رائے دہندگان کی شرح کو تبدیل کرنے کی ایک دانستہ کوشش تھی۔
انہوں نے الزام لگایا کہ جموں و کشمیر میں ایک منتخب حکومت کی عدم موجودگی میں بھارت کی مرکزی حکومت جون 2018 سے افسر شاہی ڈھانچے کے ذریعے ریاست میں بے لگام اختیارات کے ساتھ راج کر رہی ہے۔
سابق وزیر اور پیپلز کانفرنس کے چیئرمین سجاد غنی لون نے سوشل میڈیا پوسٹ میں کہا کہ یہ خطرناک ہے۔ برائے مہربانی 1987 کو ( جب نیشنل کانفرنس اور کانگریس کی مخلوط حکومت نےاسمبلی انتخابات میں مبینہ طور پر دھاندلی کی تھی اور اس کے کچھ عرصہ بعد کشمیری نوجوانوں نے بندوق اٹھائی تھی) یاد کریں۔ہم اب بھی اس سے باہر نہیں آسکے ہیں۔ 1987 کو کھیلے گئے کھیل کو دوبارہ نہ کھیلیں۔
نیشنل کانفرنس کے نائب صدر اور سابق وزیرِ اعلیٰ عمر عبد اللہ نے بھی چیف الیکٹورل افسر کے بیان پر اپنے ردِ عمل کا اظہار کیا ہے اور سوشل میڈیا پوسٹ میں استفسار کیا کہ کیا بی جے پی جموں و کشمیر کے حقیقی ووٹروں کی حمایت کے بارے میں خود کو اس قدر غیر محفوظ سمجھ رہی ہے کہ اسے عارضی ووٹروں کی برآمد کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی ہے؟
ان کا کہنا تھا کہ جب جموں و کشمیر کے عوام کو اپنے حق رائے دہی کا استعمال کرنے کا موقع فراہم کیا جائے گا تو اس وقت اس طرح کا کوئی بھی اقدام بی جے پی کے لیے فائدہ مند ثابت نہیں ہوگا۔
تاہم بی جے پی کے ایک ترجمان الطاف ٹھاکر نے چیف الیکٹورل افسر کے بیان کا خیر مقدم کیا اور اسے جمہوریت کے لیے ایک نیک فال قرار دے دیا۔
انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن کا یہ فیصلہ خوش آئند ہے اور جموں و کشمیر میں جمہوریت کے پھلنے پھونے کا عکاس بھی۔
ان کے مطابق کمیشن نے غیر مقامی مزدوروں ، ان نوجوانوں کو جو یہاں تعلیم حاصل کررہے ہیں اور ان افراد کو جو حفاظتی مقاصد کی تکمیل کے لیے یہاں تعینات ہیں، ووٹ کا حق دے کر ایک بہت ہی اچھا فیصلہ کیا گیا ہے۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ علاقائی جماعتیں اس فیصلے سے اس لیےخوش نہیں ہیں کیوں کہ انہیں اب اپنی سیاسی دال گلتی نظر نہیں آ رہی۔
حزبِ اختلاف کی جماعتوں کے اتحاد پیپلز الائنس فار گپکار ڈیکلریشن (پی اے جی ڈی) کے سربراہ اور جموں و کشمیر کے تین وزیرِ اعلیٰ رہنے والے ڈاکٹر فاروق عبد اللہ نے الیکشن کمیشن کے اس فیصلے کے مضمرات پر غور و خوض کرنے کے لیے22 اگست کو سرینگر میں ایک کل جماعتی کانفرنس بھی بلائی ہے۔
سرینگر میں حکومت کے ایک ترجمان کا کہنا ہے کہ دفعہ 370 جس کے تحت جموں و کشمیر کو یونین میں خصوصی پوزیشن حاصل تھی البتہ آئین کی اس دفعہ کی منسوخی کے بعد بھارت کے عوامی نمائندہ ایکٹ 1951 کا جموں و کشمیر پر بھی اطلاق ہوا تھا۔
ترجمان کے مطابق اس ایکٹ کو بھارتی پارلیمان نے ملک کے پہلے عام انتخابات کے انعقاد کے فوراََ بعد آئینِ کی دفعہ327 کے تحت منظور کیا تھا اور اس کی رو سے کوئی بھی بھارتی شہری اپنا نام جموں و کشمیر میں ایک ووٹر کی حیثیت سے درج کراسکتا ہے اس کے لیے شرط یہ ہے کہ وہ اسے پہلے اپنے اصلی حلقہ انتخاب کی ووٹر لسٹ سے حذف کرائے۔
ترجمان نے مزید کہا کہ دفعہ 370 کی منسوخی سے پہلے بھی وہ افراد جو جموں و کشمیر میں عارضی طور پر رہ رہے تھے۔ اپنے آپ کو رائے دہندگان کی فہرست میں شامل کرا سکتے تھے اور غیر مستقل رہائشی ووٹر کہلوانے والے یہ افراد بھارتی پارلیمان کے لیے انتخابات میں ووٹ ڈال سکتے تھے ۔
ترجمان کے مطابق پارلیمنٹ کے ایوانِ زیریں یعنی لوک سبھا کے لیے اپریل اور مئی 2019 میں کرائے گئے انتخابات کے دوران جموں و کشمیر میں ایسے غیر مستقل رہائشی رائے دہندگان کی تعداد لگ بھگ 32 ہزار تھی۔