رسائی کے لنکس

بھارتی کشمیر میں ہر گھر میں ترنگا لہرانے کا حکم نئے سیاسی تنازع کا سبب


فائل فوٹو
فائل فوٹو

بھارت کی حکومت کا آزادی کی ڈائمنڈ جوبلی کے موقع پر ملک کے ہر گھر پر قومی پرچم ’ترنگا‘ لہرانے کے فرمان سے نئی دہلی کے زیرِ انتظام کشمیر میں ایک نئے سیاسی تنازعے کا سبب بن رہا ہے۔

حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) اور اس کی چند ہم خیال جماعتوں نے جموں و کشمیر کے سابق وزیرِ اعلیٰ اور حزبِ اختلاف کی جماعت نیشنل کانفرنس کے صدر ڈاکٹر فاروق عبداللہ پر یہ الزام لگایا ہے کہ انہوں نے 'ہر گھر ترنگا، ہر گھر جھنڈا' مہم کی آڑ میں قومی پرچم کی توہین کی ہے۔

بدھ کو سرینگر میں صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو میں جب فاروق عبد اللہ سے سرکاری حکم نامے کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے کشمیری زبان میں جواب دیا کہ "ژء کھیلی زی گھری" یعنی تم اپنے گھر پرلہرانا۔

فاروق عبد اللہ کے اس بیان پر بھارت کے ذرائع ابلاغ کےمیں بھی ان پر شدید تنقید کی گئی ہے۔

اس سے ایک دن قبل سابق وزیرِ اعلیٰ نے صحافیوں سے گفتگو میں کہا تھا کہ بھارت کا قومی پرچم گھروں پر لہرانے کے سلسلے میں حکومت کی طرف لوگوں پر کسی قسم کا دباؤ نہیں ہونا چاہیے۔

انہوں نے کہا تھا کہ حکومت ہر گھر پر ترنگا لہرانے کی طاقت رکھتی ہے۔ اسے حتمی فیصلے کا اختیار ہے لیکن بات تب ہی بنے گی اور یہ بہت ہی اچھا ہوگا جب لوگ اپنی مرضی اور دل کی رضامندی سے گھروں پر قومی جھنڈا لہرائیں نہ کہ کسی سرکاری فرمان کے تحت ایسا ہوگا۔

اسی طرح کے خیالات کا اظہار ایک اور سابق وزیرِ اعلیٰ اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کی صدر محبوبہ مفتی اور چند دوسرے بھارت نواز کشمیری سیاسی رہنماؤں اور جماعتوں نے کیا ہے۔

ترنگا لہرانے کے ایک ہفتہ مقرر

بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کی انتظامیہ نے حال ہی میں سب ہی 20 اضلاع کے ڈپٹی کمشنروں کو یہ ہدایت کی تھی کہ وہ بھارت کی آزادی کے 75 برس مکمل ہونے کی مناسبت سے منائے جانے والے "آزادی کا امرت مہا اتسو" یا عظیم جشن کے موقعے پر اگست کے وسط میں ہر گھر پر ترنگا لہرائے جانے کو یقینی بنائیں۔

سرینگر کے ڈپٹی کمشنر محمد اعجاز اسد نے کہا کہ 'ہر گھر جھنڈا، ہر گھر ترنگا' لہرانے کا یہ عمل نو اگست سے لے کر 16 اگست تک جاری رہے گا۔

انہوں نے کہا کہ اس پروگرام کا مقصد لوگوں کے دلوں میں حب الوطنی کا جذبہ ابھارنا اور آزادی کی علامتوں کے احترام کے احساس کو فروغ دینا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ متعلقہ افسران کو یہ ہدایت دی گئی ہے کہ وہ اس پروگرام کو کامیاب بنانے کے لیے ضروری اقدامات اٹھائیں ۔

ترنگا مراکز قائم

سرکاری حکم نامے پر عمل درآمد کرتے ہوئے ہر ضلعے میں 'ترنگا مراکز' قائم کیے گئے ہیں جہاں سے عام لوگوں کو قومی پرچم مفت میں فراہم کیے جائیں گے۔

اس سے پہلے حکومت نے گزشتہ برس 15 اگست کو بھارت کے یومِ آزادی اور رواں سال 26 جنوری کو یومِ جمہوریہ پر جموں و کشمیر کے تمام تعلیمی اور بلدیاتی اداروں کے ساتھ ساتھ دوسرے سرکاری دفاتر میں عملے کی طرف سے قومی پرچم لہرانے کی تقریب کے انعقاد کو یقینی بنانے کے لیے ایک حکم نامہ جاری کیا تھا۔

بھارتی کشمیر میں صحافیوں کو دباؤ کا سامنا
please wait

No media source currently available

0:00 0:05:17 0:00

مارچ 2021 میں لیفٹننٹ گورنر منوج سنہا کی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے صوبہ جموں اور صوبہ کشمیر کے ڈویژنل کمشنروں نے الگ الگ سرکلر جاری کرکےتمام سرکاری عمارتوں پر قومی پرچم لہرانے کو لازمی قرار دیا تھا۔

اس سرکاری اعلامیے میں ڈپٹی کمشنرز اور مختلف سرکاری محکموں کے سربراہوں کو اس بات کا پابند بنایا گیا تھا کہ وہ دیکھیں کہ اس حکم نامے پر 15 دن کے اندر اندر عمل ہوتا ہے۔ یہ جھنڈا ان عمارتوں پر سارا سال لہرایا جائے گا۔

حکومت کا اقدام تنقید کی زد میں

اس کے علاوہ بھارت کی فوج اور دیگر سیکیورٹی فورسز اور بعض حکومتی اداروں نے ریاست بالخصوص مسلم اکثریتی وادی کشمیر کے کئی اہم مقامات پر پرچم لگائے ہیں، جن میں دارالحکومت سرینگر کے وسط میں واقع ہاری پربت یا کوہِ ماراں کی چوٹی پر اٹھارویں صدی عیسوی میں افغان درانی دورِ حکومت میں تعمیر کیا گیا قلعہ اور گلمرگ کا صحت افزا مقام بھی شامل ہیں، جہاں دیو ہیکل ترنگے مستقل طور پر لہراتےنظر آ رہے ہیں۔

بعض ناقدین اور سیاسی تجزیہ کار اس ساری مہم کو 'جبری حب الوطنی' قرار دیتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ یہ موجودہ حکومت کے متنازع جموں و کشمیر کو بھارت میں مکمل طور پر ضم کرنے کے اُسی منصوبے کا حصہ ہے جس کے تحت پانچ اگست2019 کو ریاست کی آئینی نیم خود مختاری کو ختم کیا گیا تھا اور اسےدو حصوں میں تقسیم کرکے انہیں براہِ راست مرکز کے کنٹرول والے علاقوں میں بدل دیا گیا تھا ۔

بھارتی حکومت کے پانچ اگست2019 کے اقدام سے قبل جموں و کشمیر کا اپنا آئین اور پرچم تھے البتہ آئینِ ہند کی دفعہ370 اور دفعہ35 اے کے تحت جموں و کشمیر کو ایک خصوصی آئینی حیثیت اور اختیارات حاصل تھےجن کی منسوخی کے بعد ریاست کے اپنے آئین، قوانین اور پرچم کو بھی منسوخ کر دیا گیا تھا جب کہ اب جموں و کشمیر میں بھارت کا آئین، پینل کوڈ اور پرچم رائج ہیں۔

مقامی لوگوں کے مطابق گزشتہ تین برس کے دوران بھارت کی حکومت اور ان کی پشت پناہی میں جموں و کشمیر میں انتظامیہ نے کئی متنازع اقدامات کیے ہیں، جن میں جموں و کشمیر میں ایک کے بعد دوسرا قانون نافذ کرنااور پہلے سے موجود قوانین بالخصوص ڈومیسائل اور اراضی سے متعلق قوانین میں رد و بدل بھی شامل ہیں، جس نے مقامی مسلم آبادی میں اب بھی بے چینی موجود ہے۔

’پاکستان کا قومی پرچم لہراتے ہوئے دیکھا ہے‘

حکمران بی جے پی کو چھوڑ کر تقریباََ سب ہی سیاسی جماعتوں کا کہنا ہے کہ ان اقدامات سے جموں و کشمیر اور اس کے عوام کے مفادات کو نقصان پہنچ رہا ہے جب کہ بھارت نواز علاقائی جماعتوں نیشنل کانفرنس اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی اور استصواب رائے کا مطالبہ کرنے والی کشمیری جماعتوں کے اتحاد حریت کانفرنس برملا طور پر یہ الزام لگا رہے ہیں کہ ان اقدامات کا مقصد مسلم اکثریتی ریاست کی آبادی کے تناسب کو تبدیل کیا جانا ہے۔

سرینگر کے 66 سالہ شہری عبدالستار بٹ ( نام تبدیل کیا گیا ہے) نے 'ہر گھر پر ترنگا' لہرانے کے سرکاری حکم نامے پر اپنا ردِ عمل ظاہر کرتے ہوئے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ انہوں نے پوری زندگی میں لوگوں کو بالخصوص 14 اگست پر پاکستان کا قومی پرچم لہراتے ہوئے دیکھا ہے اور وہ ایسا اپنی مرضی سے کرتے تھے۔

ان کے مطابق "میں نے بھی کئی بار ایسا کیا۔ اب اگر مجھے 15 اگست کو بھارت کا قومی پرچم لہرانے پر مجبور کیا جاتا ہے تو میرے دل کی کیا کیفیت ہوگی، اس کا اندازکرنا آپ کے لیے مشکل نہیں ہونا چاہیے۔"

ایک اور شہری نذیر احمد لون (نام تبدیل کیا گیا ہے) نے اس بات کا خدشہ ظاہر کیا کہ عسکریت پسند گھروں پر بھارت کے قومی جھنڈے لہرانے کو بالکل پسند نہیں کریں گے اور ہوسکتا ہے کہ اس کے ردِ عمل میں جھنڈا لہرانے والے کو نقسان پہنچانے کی کوشش بھی کریں۔

انہوں نے استفسار کیا "اگر مجھے اپنے گھر پر بھارت کا قومی پرچم لہرانے کے لیے مجبور کیا جاتا ہے تو کیا حکام مجھے یہ ضمانت دے سکتے ہیں کہ مجھے یا میرے گھر والوں کو اس کی پاداش میں عسکریت پسند نقصان نہیں پہنچائیں گے؟"

شہری عسکریت پسندوں سے بھی خوف زدہ

ایک اور شخص مشتاق احمد (نام تبدیل کیا گیا )نے بھی اسی طرح کے خدشے کا اظہار کیا اور پوچھا "اگر میں اپنے مکان پر ترنگا لہراتا ہوں، جبر کے نتیجے میں یا اپنی مرضی سے، کیا وہ (حکومت) مجھے یہ ضمانت دے سکتے ہیں کہ عسکریت پسند اس کے خلاف اپنا ردِ عمل تشدد کی صورت میں ظاہر نہیں کریں گے؟"

سرکاری اسکول میں تعینات استاد محمد الطاف (نام تبدیل کیا گیا ہے) نے بتایا کہ"مجھے اور میرے ساتھیوں کو 26 جنوری کو اسکول کے احاطے میں ترنگا لہرانے اور بھارت کا قومی ترانا پڑھنے پر مجبور کیا گیا۔اب کوئی فرق نہیں پڑے گا اگر ہم سے اپنے گھروں پر بھی ترنگا لہرانے کے لیے کہا جاتا ہے۔پانچ اگست 2019 کے بعد یہاں ایک ایسی ہوا چلی ہے، جس کے شور میں ہمارے اپنی آواز دب کر رہ گئی ہے۔"

نسرین (نام تبدیل کیا گیا ہے) جو ایک سرکاری ملازمہ ہیں کہتی ہیں کہ "حکومت کو چاہیے تھا کہ لوگوں کو بھارت کے قومی دنوں پر ترنگا لہرانے کے لیے قائل کرے نہ کہ انہیں مجبور کیا جائے ۔ میں ایک سرکاری ملازمہ ہوں اور میرے لیے کوئی آپشن نہیں ہے، سوائے حکم نامے پر عمل کرنے کے۔"

تاہم جموں کے ایک شہری منوج گھنڈوترہ کا کہنا تھا کہ انہوں نے ہر سال یومِ آزادی پر اپنے گھر پر قومی پرچم لہرایا ہے اور اس بار بھی ایسا کریں گے بلکہ انہیں ایسا کرتے ہوئے فخر محسوس ہوگا۔

’ترنگا لہرانے کے لیے کوئی زبردستی نہیں کی جائے گی‘

ضلع بارہمولہ کے ایک تاجر بشیر احمد ( نام تبدیل کیا گیا ہے) نے کہا کہ "میں ماضی میں یومِ جمہوریہ اور یومِ آزادی کی سرکاری تقریبات میں شرکت کرتا رہا ہوں اور اس بار بھی ایسا ہی کروں گا البتہ گھر پر ترنگا لہرانا میرے لیے آسان نہیں ہوگا ۔"

ان کا کہنا تھا کہ وہ ایک ایسے علاقے میں رہتے ہیں، جہاں عسکریت پسندوں کا آنا جانا ہے۔ وہ انہیں نقصان پہنچاسکتے ہیں۔ حکومت کو اس طرح کا حکم نامہ جاری کرنے سے پہلے کشمیر کی سیکیورٹی صورتِ حال کو نظر میں رکھنا چاہیے تھا۔

ایک اعلیٰ سرکاری افسر نے وضاحت کی کہ گھروں پر ترنگا لہرانے کے لیے کوئی زبردستی نہیں کی جائے گی۔

نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اس افسر نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ لوگوں کو گھروں پر قومی پرچم لہرانے کے لیے مجبور نہیں کیا جائے گا بلکہ ان کی حوصلہ افزائی کی جائے گی۔ چند عناصر کو چھوڑ کر عام لوگ ترنگے کا احترام کرتے ہیں۔ وہ اسے گھروں پر لہرانے میں ضرور خوشی محسوس کریں گے۔

عام لوگوں کے عسکریت پسندوں کے متشدد ردِ عمل کے خدشے کے اظہار پر اس افسر نے بتایا کہ اگر سب ہی لوگ یا ان کی اکثریت اپنے گھروں پر ترنگا لہراتے ہیں تو دہشت گرد کس کس کو اس کے لیے سزا دیں گے۔ دہشت گردوں کا مقابلہ کرنے کا وقت آگیا ہے۔ وہ کسی پر اپنی مرضی نہیں تھوپ سکتے۔

پورے ملک میں مہم جاری

سرکاری حکام نے اس بات کی بھی وضاحت کی ہے کہ "ہر گھر جھنڈا، ہر گھر ترنگا" مہم بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر ہی میں نہیں بلکہ پورے ملک میں شروع کی جارہی ہے۔

حکام نے وفاقی حکومت کی طرف سے چند ماہ پہلے جاری کئے گئے ایک بیان کا حوالہ بھی دیا جس میں کہا گیا تھا ہمارا قومی جھنڈے کے ساتھ رشتہ انفرادی کے بجائے ہمیشہ زیادہ تر رسمی اور ادارہ جاتی رہا ہے۔ لہٰذا آزادی کی 75 ویں سالگرہ پر ایک قوم کی حیثیت سے جھنڈے کو اجتماعی طور پر گھر لانے کا عمل نہ صرف ترنگے کے ساتھ ذاتی تعلق کی علامت بن جاتا ہے بلکہ یہ قوم کی تعمیر کے لیے عزّم کا عملی اظہار بھی ہوگا۔

نئی دہلی میں حکام کا کہنا ہے کہ ہر گھر پر جھنڈا لہرانے کا یہ خیال حب الوطنی کے احساسات کو اجاگر کرے گا اور قومی پرچم کے بارے میں آگاہی کو فروغ دے گا۔

ان کے مطابق ہر گھر جھنڈا لہرانے کا یہ پروگرام 'آزادی کا امرت مہا اتسو' کا ایک حصہ ہے اور اس کے تحت 15 اگست کو پورے ملک کے سب ہی اداروں میں ان کا عملہ اپنےافرادِ خانہ کے ساتھ مل کر قومی پرچم لہرانے کی تقریبات میں حصہ لے گا اور قومی ترانہ گائے گا۔

اس سلسلے میں حکومت شہریوں کو تیکنیکی تعاون پیش کرے گی اور 'جن گن من ' قومی ترانے کی موبائل اپلیکیشن بھی جاری کی جائے گی۔

حکومت مہم کی کامیابی کے لیے پر امید

بھارت کے مرکزی وزیرِ ثقافت اور سیاحت جی کرشنا ریڈی کہتے ہیں کہ 11 سے 17 اگست تک منائے جانے والے ہفتۂ آزادی کے دوران تمام شہریوں کو اپنے گھروں پر ترنگا لہرانے کی ترغیب دینے کے ساتھ ساتھ ملک کی سب ہی دو ہزار محفوظ قرار دی گئی یادگاروں پر بھی ترنگا لہرایا جائے گا۔

حکومت نے توقع ظاہر کی ہے کہ عوام کے منتخب نمائندے "ہر گھر جھنڈا، ہر گھر ترنگا" مہم کو کامیاب بنانے کے لیےفعال کردار ادا کریں گے۔

بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے لیفٹننٹ گورنر منوج سہنا نے حال ہی میں بتایا تھا کہ اب کوئی بھی فرد جموں و کشمیر میں بھارت یا اس کے قومی پرچم کی مخالفت نہیں کر سکتا۔

  • 16x9 Image

    یوسف جمیل

    یوسف جمیل 2002 میں وائس آف امریکہ سے وابستہ ہونے سے قبل بھارت میں بی بی سی اور کئی دوسرے بین الاقوامی میڈیا اداروں کے نامہ نگار کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں۔ انہیں ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں اب تک تقریباً 20 مقامی، قومی اور بین الاقوامی ایوارڈز سے نوازا جاچکا ہے جن میں کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی طرف سے 1996 میں دیا گیا انٹرنیشنل پریس فریڈم ایوارڈ بھی شامل ہے۔

XS
SM
MD
LG