رسائی کے لنکس

بھارتی کشمیر: لشکرِ طیبہ کے گرفتارعسکریت پسند کا بی جے پی سے مبینہ تعلق، اپوزیشن کا تحقیقات کا مطالبہ


گرفتار ہونے والے طالب حسین کا تعلق بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے سرحدی ضلع راجوری سے ہے۔(فائل فوٹو)
گرفتار ہونے والے طالب حسین کا تعلق بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے سرحدی ضلع راجوری سے ہے۔(فائل فوٹو)

بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں گرفتار ہونے والے کالعدم لشکرِ طیبہ کے دو عسکریت پسندوں میں سے ایک کے حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی(بی جے پی) کے ساتھ تعلق کا انکشاف ہونے کے بعد ایک بڑے سیاسی تنازع نے جنم لے لیا ہے۔

بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے ضلع ریاسی کے ایک دور دراز گاؤں کے مکینوں نے اتوار کو کالعدم لشکرِ طیبہ کے دو عسکریت پسندوں کو پکڑ کر پولیس کے حوالے کردیا تھا۔ گرفتار ہونے والے ان افراد سے متعلق سامنے آنے والی تفصیلات کے مطابق ان میں سے ایک طالب حسین شاہ بی جے پی صوبائی آئی ٹی اور سوشل میڈیا سیل کا سربراہ تھا۔

یہ تفصیلات سامنے آنے کے بعد بھارت میں حزبِ اختلاف کی سب سے بڑی جماعت کانگریس نے بی جے پی کے اُن رہنماؤں کو تحقیقات کے لیے حراست میں لینے کا مطالبہ کیا ہے جن کے ساتھ طالب حسین کی تصویریں سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی ہیں۔ ان رہنماؤں میں بھارت کے وزیرِِ داخلہ امیت شاہ اور بھارت کے زیرِِ انتظام کشمیر میں بی جے پی یونٹ کے صدر رویندر رینا بھی شامل ہیں۔

طالب حسین کیسے گرفتار ہوا؟

گرفتار ہونے والے طالب حسین کا تعلق بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے سرحدی ضلع راجوری سے ہے اور ان کے ساتھی فیصل احمد ڈار وادئ کشمیر کے جنوبی ضلع پُلوامہ کے رہنے والے ہیں۔ اتوار کو ریاسی کے ایک پہاڑی گاؤں ٹکسن ڈھوک کے باشندوں نے تلخ کلامی کے بعد ان دونوں کو قابو کرکے انہیں رسیوں سے باندھ کر پولیس کے حوالے کردیا تھا۔

پولیس کا کہنا ہے کہ اس وقت دونوں افراد مسلح تھے جب کہ ان کے استعمال میں رہنے والی دو اے کے 47 بندوقیں، سات دستی بم اور بھاری تعداد میں گولیاں اور بارود برآمد کیے گئے تھے۔ بعد ازاں طالب حسین کی نشاندہی پر ضلع راجوری کے گاؤں دَرّج میں عسکریت پسندوں کے ایک ٹھکانے سے چھ مقناطیسی یا اسٹکی بم، تین پستول میگزین اور 19 راؤنڈز، ایک انڈر بیرل گرینیڈ لانچراورتین گرینیڈ، اے کے 47 بندوق کی 75 گولیاں اور اینٹنا سمیت ایک آئی ای ڈی بھی برآمد کی گئی۔

اطلاعات کے مطابق عسکریت پسند اتوار کو علی الصباح ٹکسن ڈھوک پہنچے تھے جہاں انہوں نے ایک ڈھوک یا مٹی کے بنے گھر میں گھس کر اہلِ خانہ سے کھانا مانگا تھا۔ عسکریت پسندوں نے گھروالوں سےاپنے موبائل فون بند کرنے کے لیے کہا تھا اور انہیں مبینہ طور پر ڈرایا دھمکایا بھی تھا۔

یرغمال بنائے گئے گھرانے کا ایک فرد بہانے سے تھوڑی دیر کے لیے باہر جانے میں کامیاب ہوگیا تھا جس کے بعد اس نے ایک رشتے دار کو موبائل فون پر گھر میں عسکریت پسندوں کی موجودگی کی اطلاع دی تھی۔

پولیس کا کہنا ہے کہ یرغمال گھرانے سے رابطے میں آنے والے ان کے رشتے دار نے گاؤں والوں کو جمع کرلیا تھا اور مل کر عسکریت پسندوں پر قابو پالیا تھا۔ اس کے بعد انہوں نے فون پر علاقے کے ایک پولیس افسر کو اس کی اطلاع دے دی تھی۔

بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے سربراہِ انتظامیہ لیفٹننٹ گورنر منوج سنہا نے فوری عسکریت پسندوں کو گرفتار کرانے والے افراد کے لیے پانچ لاکھ روپے انعام دینے کا اعلان کیا ہے۔

بی جے پی سے تعلق کے الزامات اور ردّعمل

ان عسکریت پسندوں کی گرفتاری کے چند گھنٹے بعد یہ انکشاف ہوا کہ طالب حسین نے کچھ عرصہ پہلے بی جے پی میں شمولیت اختیار کی تھی اور رواں برس نو مئی کو پارٹی نے انہیں صوبہ جموں میں اپنے اقلیتی شعبے کی انفارمیشن ٹیکنالوجی (آئی ٹی) اور سوشل میڈیا سیل کا سربراہ مقرر کیا تھا۔ اس کے ساتھ ہی سوشل میڈیا پر ایسی تصویریں وائرل ہوگئیں جن میں طالب حسین کو بی جے پی کے سرکردہ لیڈروں کے ساتھ دیکھا جاسکتا ہے۔

اپوزیشن جماعت کانگریس پارٹی نے بی جے پی کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے دہشت گردوں کو پناہ دینے کا الزام عائد کیا ہے۔ کانگریس کے ایک ترجمان رویندر شرما کا کہنا ہے کہ’’ بی جے پی اپنی صفوں میں دہشت گردوں کی موجودگی کے بارے میں قوم کے سامنے جواب دہ ہے۔ طالب حسین نہ صرف بی جے پی کا ایک رکن ہے بلکہ ایک اہم پارٹی عہدے پر فائز بھی ہے۔راجستھان کے بعد اب جموں و کشمیر میں بھی یہ بات عیاں ہوگئی ہے کہ دیش بھگتی کا دم بھرنے والی یہ جماعت دراصل دہشت گردوں کی پشت پناہ ہے۔"

واضح رہے چند دن قبل کانگریس پارٹی نے بھارتی نشریاتی ادارے 'انڈیا ٹوڈے' کی ایک رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے الزام لگایا تھا کہ راجستھان کے شہر اُدے پورے میں توہین مذہب کے نام پر ہندو درزی کے قتل میں ملوث ریاض عطاری کا تعلق بی جے پی سے ہے۔ اس رپورٹ میں عطاری کو الگ الگ تصویروں میں راجستھان کے بی جے پی یونٹ کے کئی رہنماؤں کے ساتھ دیکھا جاسکتا ہے۔

بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کی سابق وزیرِ اعلیٰ اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی صدر محبوبہ مفتی نے بھی اس معاملے پر بی جی پی کو ہدفِ تنقید بنانے کے لیے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ"پہلے ادے پور کا قاتل اور اب راجوری میں پکڑا گیا لشکرِ طیبہ کا عسکریت پسند، دونوں کے بی جے پی کے ساتھ گہرے روابط ہیں۔ حکمران جماعت گئے گزرے جرائم پیشہ عناصر کو ،چاہے وہ گئو رکھشا کرنے والے ہوں یا دہشت گرد اپنے فرقہ پرستانہ تقسیم اور نفرت کے ایجنڈے کو جاری رکھنے کے لیے استعمال کررہی ہے۔"

بی جے پی کا مؤقف

البتہ بی جے پی نے دعویٰ کیا ہے کہ طالب حسین کبھی پارٹی کا بنیادی رکن تھا اور نہ ہے۔ پارٹی کے ایک ترجمان ابھینو شرما کا کہنا ہے کہ پارٹی کے ریکارڈ کے مطابق طالب حسین بی جے پی کا رکن نہیں ہے البتہ وہ دو تین مرتبہ پارٹی صدر دفاتر پر ایک نیوز پورٹل کے رپورٹر کی حیثیت سے آیا تھا جہاں سے اس نے پارٹی کے رہنماؤں تک رسائی حاصل کی تھی۔

شرما نے مزید کہا کہ طالب حسین دراصل ایک صحافی کا لبادہ اوڑھ کر سرحدپار بیٹھے اپنے آقاؤں کی ہدایت پر بی جے پی لیڈروں کے معمولات پر نظر رکھ رہا تھا۔ انہوں ںے الزام عائد کیا کہ طالب حسین کی یہ سرگرمیاں بی جے پی کے لیڈروں کو قتل کرنے کی سازش کا ایک حصہ تھا۔ حکومت کو چاہیے کہ ان تمام لیڈروں کی سیکیورٹی کو مزید سخت کرے۔ بی جے پی کے قومی سطح کے ترجمان رنبیر سنگھ پٹھانیہ نے بھی طالب حسین کے معاملے پر یہی موقف اختیار کیا ہے۔

حزب اختلاف کا مؤقف ہے کہ طالب حسین کی ایک ایسی تصویر بھی سامنے آچکی ہے جس میں وہ بی جے پی کے جموں و کشمیر یونٹ کے صدر رویندر رینا سے گلدستہ وصول کررہے ہیں۔ جب کہ ایک اور پارٹی لیڈر شیخ بشیر طالب حسین کو تقرر نامہ پیش کررہے ہیں جس کے مطابق انہیں نومئی کو جموں صوبے میں بی جے پی کے آئی ٹی اور سوشل میڈیا سیل کا سربراہ مقرر کیا گیا تھا۔

’طالب حسین ڈیڑھ ماہ سے پولیس کی نظروں میں تھا‘

بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کی پولیس کا کہنا ہے کہ طالب حسین پہلے ہی ان کی نظر میں تھا۔ ایک اعلیٰ پولیس عہدے دار نے کہا ہے کہ پولیس کو شبہ تھا کہ طالب حسین ضلع راجوری کے کوٹرانکا علاقے میں ڈیڑھ ماہ پہلے ایک مقناطیسی بم سے کیے گئے دھماکے اور ایک شہری کے قتل میں ملوث تھا۔ اس کے بعد سے طالب حسین کی کی نقل وحرکت پر کڑی نگاہ رکھی جارہی تھی۔

پولیس نے بتایا کہ شہری کو قتل کرنے کے لیے طالب حسین نے وہی بندوق استعمال کی تھی جو اتوار کو اس سے برآمد کی گئی ہے۔

کشمیر کے ہاتھ سے بنے قالین پر 'کیو آر کوڈ' کیوں لگایا جا رہا ہے؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:58 0:00

پولیس سربراہ دلباغ سنگھ نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ طالب حسین مختصر مدت تک بی جے پی میں شامل رہا ہے۔ انہوں نے منگل کو ٹکسن ڈھوک کے دورے کے موقعے پر نامہ نگاروں کو بتایا کہ ایسے عناصر اس طرح آڑ لے کر اپنی قوم دشمن سرگرمیوں کو جاری رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ خوشی کی بات ہے کہ وہ بی جے پی میں زیادہ عرصے تک نہیں رہا بلکہ اس کا اس جماعت کے ساتھ تعلق محدود رہا۔

ان کا کہنا تھا کہ پولیس طالب حسین سے پوچھ گچھ کررہی ہے اور یہ جاننے کی کوشش کررہی ہے کہ بی جے پی میں شامل ہونے کے پیچھے اس کے کیا مقاصد تھے۔

پولیس سربراہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ یہ صرف ایک سیاسی جماعت کا معاملہ نہیں ہے۔ طالب حسین خود کو ایک صحافی کی حیثیت سے بھی پیش کررہا تھا۔ وہ ایسا پہلا میڈیا پرسن نہیں ہے کیوں کہ ماضی میں بھی ایسے لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے اور یہ سلسلہ جاری رہے گا۔

  • 16x9 Image

    یوسف جمیل

    یوسف جمیل 2002 میں وائس آف امریکہ سے وابستہ ہونے سے قبل بھارت میں بی بی سی اور کئی دوسرے بین الاقوامی میڈیا اداروں کے نامہ نگار کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں۔ انہیں ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں اب تک تقریباً 20 مقامی، قومی اور بین الاقوامی ایوارڈز سے نوازا جاچکا ہے جن میں کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کی طرف سے 1996 میں دیا گیا انٹرنیشنل پریس فریڈم ایوارڈ بھی شامل ہے۔

XS
SM
MD
LG