صدر ٹرمپ شمالی کوریا کے لیڈر کم جونگ اُن سے ملاقات کے بعد بہت پر اُمید اور خوش دکھائی دیئے ہیں۔ ملاقات کے بعد جاری ہونے والے مشترکہ اعلامیہ میں اگرچہ جزیرہ نما کوریا کو جوہری ہتھیاروں سے پاک کرنے پر اتفاق کر لیا گیا ہے تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ سمجھوتہ محض علامتی ہے اور کم جونگ اُن کبھی بھی اپنے جوہری اور میزائل پروگرام کو ختم کرنے پر سنجیدہ نہیں ہوں گے۔
یونائیٹڈ اسنٹی ٹیوٹ آف پیس میں جنوبی ایشیا پروگرام کے شریک صدر ڈاکٹر معید یوسف نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس بات کا کوئی امکان نہیں ہے کہ شمالی کوریا مکمل طور پر جوہری ہتھیاروں کو تلف کر دے گا۔
معید یوسف کہتے ہیں کہ شمالی کوریا کے سامنے بھارت اور پاکستان کی واضح مثالیں موجود ہیں جن میں دونوں ممالک جوہری ہتھیار تیار کرنے کے باوجود امریکہ کے قریبی حلیف رہے ہیں۔ لہذا شمالی کوریا کے لیڈر کوئی ایسا راستہ اختیار کر لیں گے جس کے ذریعے امریکہ کو مطمئن بھی رکھا جائےا ور اپنا جوہری پروگرام بھی جاری رکھا جائے۔
تاہم معید یوسف کہتے ہیں کہ اس اعلیٰ ترین سطح پر علامتی سمجھوتہ بھی ایک بڑی کامیابی ہے اور اس میں مزید پیش رفت بعد میں ہونے والے رابطوں سے ہی ظاہر ہو گی۔
امریکہ کے ایک معروف تھنک ٹینک بروکنگز انسٹی ٹیوٹ کی سینئر فیلو اور کوریائی اُمور کی ماہر جنگ پاک کہتی ہیں کہ وہ گذشتہ تیس برس سے کم جونگ اُن کو بڑا ہوتے ہوئے دیکھ رہی ہیں۔ اُن کے مطابق کم اپنے اقتدار کے پہلے چھ برسوں کے دوران امریکہ اور دیگر ممالک کے ساتھ محاذ آرائی اور جوہری اور میزائل پروگرام کو فروغ دینے پر پوری طرح کاربند رہے ہیں۔ تاہم حالیہ دنوں میں اُنہوں نے جس یو ٹرن کا مظاہرہ کیا ہے اُس سے ظاہر ہوتا ہے کہ 34 سالہ کم نے اپنے والد اور دادا کی طرح زیادہ سے زیادہ دباؤ بڑھانے اور سفارتکاری دونوں میں یکساں مہارت حاصل کر لی ہے۔
جنگ پاک کہتی ہیں کہ اُنہوں نے علاقے میں دلچسپی رکھنے والے تمام ممالک کے ساتھ دو طرفہ رابطوں میں مہارت حاصل کر لی ہے۔ مثال کے طور پر وہ چین سے رابطوں میں چین سے اقتصادی تعلقات کو فروغ دینے اور چین کی سائنٹفک اور ٹکنالوجیکل پیش رفت سے فائدہ اُٹھانے کی بات کرتے ہیں جس کی چین اُن سے توقع رکھتا ہے۔ اسی طرح جب وہ جنوبی کوریا کے ساتھ رابطے کرتے ہیں تو دونوں ملکوں کے عوام کے درمیان موجود خونی رشتوں، امن اور اتحاد کی بات کرتے ہیں جس کا تاثر جنوبی کوریا میں انتہائی مقبول ہے۔
جنگ پاک کے مطابق کم امریکہ کے ساتھ رابطوں کو عمومی سطح پر نہیں دیکھ رہے ہیں بلکہ اُن کی تمام تر توجہ صدر ٹرمپ کے ساتھ رابطے پر ہے۔ یوں وہ اُنہی باتوں پر توجہ دے رہے ہیں جن میں صدر ٹرمپ کو خاص طور پر دلچسپی ہے۔
جنگ پاک کہتی ہیں کہ کم جونگ اُن نے ان ملکوں کی قومی ترجیحات کا بھرپور فائدہ اُٹھانے میں بھی مہارت حاصل کر لی ہے۔
بروکنگز انسٹی ٹیوٹ کے فیلو اور مشرقی ایشیائی اُمور کے ماہر رائن ہس کا کہنا ہے کہ اگرچہ صدر ٹرمپ ایک غیر روایتی لیڈر ہیں، اُنہوں نے شمالی کوریا کے حوالے سے سفارتی آداب کو محوظ خاطر رکھتے ہوئے بات چیت کی ہے۔
رائن ہس کہتے ہیں کہ مشترکہ اعلامیے میں جزیر نما کوریا کو جوہری ہتھیاروں سے پاک کرنے کے عزم کا اظہار کیا گیا ہے۔ تاہم اس کیلئے کوئی ٹائم فریم موجود نہیں ہے۔ لہذا آئندہ ہونے والے رابطوں میں یہ دیکھا جائے گا کہ دونوں ملکوں کے لیڈر اپنے اس عزم کو عملی جامہ پہنانے میں کس حد تک سنجیدہ ہیں۔