جنوبی کوریا کے بزرگ شہری پڑوسی ملک شمالی کوریا میں آباد اپنے رشتہ داروں سے ملاقات کے بعد ہفتہ کو نم آنکھوں سے جدا ہوئے۔ 1950ء میں کوریائی جنگ کے بعد منقسم خاندانوں کے درمیان یہ پہلی ملاقات تھی۔
منقسم خاندانوں کے درمیان جمعرات کو یہ ملاقات شمال کے سیاحتی پہاڑی علاقے کمگانگ میں شروع ہوئی تھی۔ جنوبی کوریا کے 82 اور شمالی کوریا کے 180 بزرگ افراد نے اکٹھے وقت گزرا۔ تحائف اور خاندان کے دیگر افراد کی تصاویر کا تبادلہ کیا۔
ایسے ہی جدا ہونے والے خاندانوں کے ایک اور گروپ کے درمیان ملاقات اتوار کو ہو گی۔
تقریباً تین سال کے وقفے کے بعد منقسم خاندانوں کا ملاپ ہوا کیوں کہ دونوں پڑوسی ممالک کے درمیان سیاسی تناؤ کے باعث آخری لمحات پر کئی ایسی ملاقاتیں منسوخ کر دی گئیں۔
اس بار بھی جنوبی کوریا اور امریکہ کے درمیان مشترکہ جنگی مشقوں کے منصوبے کے باعث شمالی کوریا کی طرف سے خاندانوں کے درمیان ملاقات منسوخ کرنے کا اعلان جا رہا تھا تاہم بعد میں ایسا نا کیا گیا۔
پیانگ یانگ کا کہنا ہے کہ مشترکہ مشقیں اشتعال انگیزی کا باعث ہیں اس لیے انھیں منسوخ یا موخر کر دیا جائے۔
ان حالات میں جدا خاندانوں کی ملاقات کو کوریائی ممالک کے تعلقات میں بہتری کے لیے اُمید افزا اقدام قرار دیا جا رہا ہے۔ تاہم بعض مبصرین کا کہنا ہے اس سے دوطرفہ تعلقات میں کسی بڑی تبدیلی کی اُمید نہیں۔
منقسم خاندانوں کے درمیان جمعرات کو یہ ملاقات شمال کے سیاحتی پہاڑی علاقے کمگانگ میں شروع ہوئی تھی۔ جنوبی کوریا کے 82 اور شمالی کوریا کے 180 بزرگ افراد نے اکٹھے وقت گزرا۔ تحائف اور خاندان کے دیگر افراد کی تصاویر کا تبادلہ کیا۔
ایسے ہی جدا ہونے والے خاندانوں کے ایک اور گروپ کے درمیان ملاقات اتوار کو ہو گی۔
تقریباً تین سال کے وقفے کے بعد منقسم خاندانوں کا ملاپ ہوا کیوں کہ دونوں پڑوسی ممالک کے درمیان سیاسی تناؤ کے باعث آخری لمحات پر کئی ایسی ملاقاتیں منسوخ کر دی گئیں۔
اس بار بھی جنوبی کوریا اور امریکہ کے درمیان مشترکہ جنگی مشقوں کے منصوبے کے باعث شمالی کوریا کی طرف سے خاندانوں کے درمیان ملاقات منسوخ کرنے کا اعلان جا رہا تھا تاہم بعد میں ایسا نا کیا گیا۔
پیانگ یانگ کا کہنا ہے کہ مشترکہ مشقیں اشتعال انگیزی کا باعث ہیں اس لیے انھیں منسوخ یا موخر کر دیا جائے۔
ان حالات میں جدا خاندانوں کی ملاقات کو کوریائی ممالک کے تعلقات میں بہتری کے لیے اُمید افزا اقدام قرار دیا جا رہا ہے۔ تاہم بعض مبصرین کا کہنا ہے اس سے دوطرفہ تعلقات میں کسی بڑی تبدیلی کی اُمید نہیں۔