پاکستان کی سویلین اور عسکری قیادت پر مشتمل قومی سلامتی کمیٹی نے افغانستان کا نام لیے بغیر قرار دیا ہے کہ کسی بھی ملک کو اپنی سرزمین دہشت گردوں کی پناہ گاہ کے طورپر استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی اور پاکستان اپنے عوام کے تحفظ وسلامتی کے دفاع کا ہر حق محفوظ رکھتا ہے۔
اعلیٰ سطحی کمیٹی کے دوسرے روز جاری رہنے والے اجلاس میں پاکستان میں دہشت گردی کے لیے ’زیروٹالرنس‘ کے عزم کا اعادہ کرتے ہر قسم کی دہشت گردی جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کا عہد دوہرایا گیا۔
وزیر اعظم کی زیر صدارت دو روز تک جاری رہنے والے اجلاس کے اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ دہشت گردی سے پوری ریاستی قوت سے نمٹا جائے گا۔ پاکستان کی سلامتی پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوسکتا اور پاکستان کی سرزمین کے ایک ایک انچ پر ریاستی عمل داری کو یقینی بنایا جائے گا۔
قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس ایسے وقت میں ہوا ہے جب خیبر پختونخوا میں شدت پسندی اور کالعدم ٹی ٹی پی کی سرگرمیاں بڑھ رہی ہیں اور ساتھ ہی پاکستان کی خراب معاشی صورت حال کے باعث زرمبادلہ کے ذخائر تقریبا چھ ارب ڈالر کی کم سطح پر آچکے ہیں۔
کمیٹی کو ملک بالخصوص خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں سیکیورٹی کی صورت حال سے بھی آگاہ کیا گیا ۔
وزیراعظم نے زور دیا کہ نیشنل ایکشن پلان اور نیشنل انٹرنل سیکیورٹی پالیسی کے مطابق وفاق اور صوبائی حکومتیں دہشت گردی کے خلاف جنگ کی قیادت کریں گی جس میں عوام کی سماجی ومعاشی ترقی کو مرکزیت حاصل ہے۔
اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ سازگارو موزوں محفوظ ماحول کو یقینی بنانے میں مسلح افواج ایک ٹھوس ڈیٹرنس فراہم کریں گی۔ صوبائی ایپیکس کمیٹیاں بحال کی جارہی ہیں جب کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے خاص طورپر انسداد دہشت گردی کے محکموں کی صلاحیتوں اور استعداد کار کو مطلوبہ معیار پر لایاجائے گا۔
اجلاس نے قرار دیا کہ ’قومی سلامتی‘ کا تصور معاشی سلامتی کے گردگھومتا ہے اور یہ کہ معاشی خودانحصاری اور خودمختاری کے بغیر قومی خودمختاری اور وقارپر دباؤ آتا ہے۔
اتفاق کیاگیا کہ تمام متعلقہ فریقوں کی مشاورت سے تیز رفتار معاشی بحالی اور روڈ میپ پر اتفاق رائے پیدا کیاجائے۔
اس سے قبل جمعہ کو قومی سلامتی کو درپیش دو بڑے خطرات دہشت گردی اور خراب معیشت پر بریفنگ کے بعد اجلاس سوموار تک موخر کردیا گیا تھا۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات اور ہمسایہ ملک افغانستان کی صورتِ حال پر پاکستان کو تشویش ہے تاہم خراب معاشی صورت حال کے باعث اسلام آباد کے سامنے امکانات محدود ہیں۔
دفاعی امور کی تجزیہ نگار ڈاکٹر عائشہ صدیقہ کہتی ہیں کہ قومی سلامتی کمیٹی کے اعلامیہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان، افغانستان کی طالبان حکومت کے ساتھ معاملات کو زیادہ بگاڑ کی طرف نہیں لے جانا چاہتا۔
انہوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اسی وجہ سے نیشنل ایکشن پلان اور صوبائی انسداد دہشت گردی کے اداروں کو فعال کرنے کی بات کی گئی ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ خراب معاشی صورت حال کے باعث پاکستان جنگ کو پھیلا نہیں سکتا ہے اور اس کے لیے حکومت خطے کے ممالک اور او آئی سی کے ذریعے سفارتی کوششیں کرے گی۔
عائشہ صدیقہ کے بقول اسی بنا پر اعلامیہ میں افغانستان کا نام نہیں لیا گیا اور دفاعی خطرے کی بہت کم بات کی گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ افغانستان کا مسئلہ اس نوعیت کا ہے کہ پاکستان ردعمل میں جو بھی اقدام کرے گا اس کے ملک پر منفی نتائج مرتب ہوں گے اور معیشت کی حالت کسی ایسے اقدام کی اجازت نہیں دیتی۔ لہذا وہ کہتی ہیں کہ پاکستان کے پاس بات چیت اور سفارتی راستہ ہی رہ جاتا ہے۔
امریکہ کی جانب سے پاکستان کو دہشت گردی کے حوالے سے تعاون کی پیشکش پر عائشہ صدیقہ کہتی ہیں کہ یہ پاکستان کو قبول نہیں ہوگا۔ ان کے بقول امریکہ سے معلومات کی حد تک تعاون تو لیا جاسکتا ہے لیکن اسے آگے لے جانے سے یہ جنگ محدود نہیں رہے گی۔
انہوں نے کہا کہ اب امریکہ کی توجہ بھی افغانستان میں زیادہ نہیں ہے اور وہ بھی ڈرون حملوں سے زیادہ پاکستان کے ساتھ تعاون نہیں کر سکے گا۔