ایران کے وزیرِ خارجہ جواد ظریف نے کہا ہے کہ عالمی طاقتوں کے ساتھ طے پانے والے جوہری معاہدے میں ایران کی بیشتر شرائط کا احترام کیا گیا ہے لیکن ایران کو بھی مغرب کے بعض مطالبات تسلیم کرنا پڑے ہیں۔
منگل کو ایرانی پارلیمان میں خطاب کرتے ہوئے جواد ظریف نے معاہدے پر سخت گیر حلقوں کی جانب سے ہونے والی تنقید کا جواب دیتے ہوئے معاہدے کا دفاع کیا۔
انہوں نے کہا کہ وہ یہ دعویٰ نہیں کرتے کہ معاہدہ مکمل طور پر ایران کے حق میں ہے کیوں کہ مذاکرات "کچھ لو، کچھ دو" کے اصول پر ہوتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ انہیں تسلیم ہے کہ ایران نے معاہدے پر اتفاقِ رائے کے لیے کچھ لچک دکھائی ہے لیکن وہ ایران کے بنیادی مفادات سے متعلق ان بیشتر سرخ لکیروں کی پاسداری میں کامیاب رہے ہیں جو خود ایران کے سپریم رہنما آیت اللہ خامنہ ای نے واضح کی ہیں۔
جواد ظریف نے ایوان کو بتایا کہ انہوں نے سپریم رہنما کو بھی اس بارے میں آگاہ کیا ہے کہ معاہدے میں ایران کے بیشتر مفادات کا تحفظ کیا گیا ہے۔
گزشتہ ہفتے ویانا میں ہونے والے معاہدے کے تحت ایران اپنی بیشتر جوہری سرگرمیاں ختم کردے گا جس کے عوض اس پر عائد بین الاقوامی اقتصادی پابندیاں اٹھالی جائیں گی۔
معاہدے کو موثر ہونے کے لیے ایران کی قومی سلامتی کونسل کی منظوری درکار ہے جس کے بعد یہ توثیق کے لیے آیت اللہ علی خامنہ ای کو بھیجا جائے گا جنہیں ایران میں تمام فیصلوں کا حتمی اختیار حاصل ہے۔
معاہدے پر اتفاقِ رائے کے بعد سے ایران کے سخت گیر حلقے اور فوج 'پاسدارانِ انقلاب' کے مرکزی عہدیداران اسے مسلسل تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں ۔
ایران کے فوجی حلقے بطور خاص معاہدے کی ان شقوں پر معترض ہیں جن میں ایران پر بیلسٹک میزائلوں کی تیاری اور بیرونِ ملک سے اسلحے کی خریداری پر قدغنیں عائد کی گئی ہیں۔
آیت اللہ علی خامنہ ای نے تاحال معاہدے سے متعلق کوئی ایسا بیان نہیں دیا ہے جس سے ان کے موقف کی وضاحت ہوسکے۔
لیکن ہفتے کو انہوں نے اپنے ایک خطاب میں کہا تھا کہ وہ "ایران کی سکیورٹی اور دفاع سے متعلق صلاحیتوں کو خطرے میں ڈالنے" کی اجازت نہیں دیں گے۔
منگل کو ایرانی پارلیمان کو معاہدے پر اعتماد میں لیتے ہوئے وزیرِ خارجہ جواد ظریف کا کہنا تھا کہ اقوامِ متحدہ نے ایران پر نیوکلیئر وار ہیڈز لے جانے والے میزائلوں کی تیاری پر پابندی عائد کر رکھی ہے جس سے ایران کا میزائل پروگرام متاثر نہیں ہوگا کیوں کہ ایران نیوکلیئر میزائل تیار نہیں کرتا۔