پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ کشیدگی کے بعد دونوں ملکوں کے ایک طبقے نے جس غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کیا وہ دونوں ملکوں اور باقی دنیا کے لیے بھی انتہائی تشویش ناک بات ہے۔ دونوں ملک جوہری اسلحوں سے لیس ہیں۔ جوہری ہتھیاروں سے لیس دونوں ملکوں کے درمیان کسی بھی مہم جوئی کے بعد حالات کیا رخ اختیار کر سکتے ہیں، اس بارے میں سوچنا بھی دشوار ہے۔
نیوکلئیر ریڈیالوجیکل اینڈ پلازما انجینیرنگ یونیورسٹی آف الی نوائے کے پروفیسر رضوان الدین نے وائس آف امریکہ کو ایک انٹرویو میں موجودہ صورت حال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’آج تک دو جوہری طاقتوں کے درمیان کبھی جنگ نہیں ہوئی۔ اس لیے تاریخ سے تو اس بارے میں مدد نہیں مل سکتی‘‘۔
مگر یہ کہنا زیادہ مشکل نہ ہوگا کہ اگر جنگ ہوتی ہے تو وہ چاہے شروع غیر جوہری اسلحوں کے ساتھ ہی کیوں نہ ہوئی ہو جوہری ہتھیاروں کے استعمال کے امکانات یقیناً بہت بڑھ جائیں گے۔ اور یہ سبھی جانتے ہیں کہ جنگ شروع کرنا آسان ہوتا ہے اور روکنا بہت دشوار۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا بھارت اور پاکستان جیسے جوہری اسلحے کے حامل پڑوسی ملک کسی جوہری جنگ کے متحمل ہو سکتے ہیں، تو انہوں نے کہا کہ اس کا جواب تو بہت آسان ہے مگر دونوں ملکوں کے عوام الناس کو اور خاص طور پر اس مخصوص طبقے کے لیے جو اس وقت غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کر رہا ہے، اس جواب سے اتفاق کرانے کے لیے ضروری ہے کہ انہیں جوہری جنگ کی ہولناکیوں سے پوری طرح سے آگاہ کیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ ’’اس وقت دنیا بھر کے ملکوں کے پاس جتنے جوہری بم ہیں وہ سب کے سب استعمال ہو جائیں تو دنیا کئی بار ختم ہو سکتی ہے‘‘۔
انہوں نے کہا کہ ’’جوہری بم، کیمیائی بموں کی طرح نہیں ہوتے، بلکہ یہ ان سے بہت مختلف ہوتے ہیں۔ یہ نہ صرف کیمیائی بموں کے مقابلے میں کہیں زیادہ تباہی مچا سکتے ہیں بلکہ جوہری بموں کے تباہ کن اثرات ان کے استعمال کے برسوں بعد بلکہ دہائیوں تک باقی رہتے ہیں‘‘۔
انہوں نے کہا کہ ’’کیمیائی بم، یا ٹی این ٹی بم جہاں گرائے جاتے ہیں، تباہی وہیں تک محدود رہتی ہے۔ جتنا بڑا بم ہوگا اتنے ہی بڑے حصے پر تباہی ہوگی۔ دوسری طرف جوہری ہتھیار کے استعمال کے بعد جو تابکاری نکلے گی وہ ہوا کے ساتھ بہت دور تک جا سکتی ہے‘‘۔
رضوان الدین نے کہا کہ 1986 میں چرنیوبل میں ایٹمی حادثے کے بعد جو تابکاری نکلی وہ ہوا کے ساتھ سینکڑوں ہزاروں میل دور تک پہنچی تھی۔ چرنیوبل اور آس پاس کے شہروں کو تو خالی کرا یا ہی گیا تھا۔ لیکن، تابکاری کی وجہ سے دور دراز کے علاقوں میں اگنے والی نہ سبزیاں کھائی جا سکتی تھیں اور نہ ہی گائے بکری کا دودھ پیا جا سکتا تھا‘‘۔
انہوں نے کہا کہ ایک اندازے کے مطابق گزشتہ تیس برسوں میں وہاں ہونے والے نقصان کا تخمینہ 200 ارب ڈالر سے زیادہ ہے اور ایک بہت بڑا علاقہ رہنے کے قابل نہیں رہا۔
پروفیسر رضوان الدین نے کہا کہ ہیرو شیما اور ناگا ساکی کے واقعے کو ستر سال سے زیادہ ہو چکے ہیں اور یہ ٹھیک ہے کہ وہاں زندگی معمول پرآ گئی ہے مگر سوچنے کی بات یہ ہے کہ آیا وہ قیمت جو ہیرو شیما اور ناکاساکی کے باسیوں نے دی، کیا ضروری ہے کہ بھارت اور پاکستان کے کسی شہر کے لوگ بھی وہ قیمت دیں؟
انہوں نے کہا کہ ’’لاهور پر گرنے والے ایٹمی بم سے امرتسر محفوظ نہیں ہو گا اور امرتسر پر گرنےوالے بم سے لاہور۔ تابکاری سرحدیں نہیں مانتی‘‘۔
ضروری ہے کہ دونوں ملکوں کے رہنے والے اور اس سے بھی زیادہ ضروری ہے کہ دونوں ملکوں کے ذرائع ابلاغ کے کرتا دھرتا، جوہری جنگ کے دور رس اثرات اور اس سے ہونے والے معاشی نقصانات سے پوری طرح آگاہ ہوں۔
اور بفلو اسٹیٹ یونیورسٹی نیو یارک میں انٹر نیشنل ریلیشنز کے پروفیسر اور معروف میڈیا اینیلسٹ فیضان حق نے وائس آف امریکہ کو ایک انٹرویو میں کہا کہ ’’پاکستان اور بھارت کے درمیان اس وقت جو کشیدگی ہے اسے دور کرنے کے لیے بین الاقوامی برادری پر بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ خاص طور پر امریکہ، برطانیہ، فرانس، روس اور چین جیسی بڑی طاقتوں پر، کیوں کہ دو جوہری ملکوں کے درمیان کشیدگی میں کسی بھی قسم کا انتہائی اضافہ جوہری ہتھیاروں کے استعمال پر منتج ہو سکتا ہے، جس کے تابکاری اثرات صرف ان ملکوں تک ہی محدود نہیں رہیں گے بلکہ دور دور تک جائیں گے‘‘۔
انہوں نے کہا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ پاکستان، بھارت اور چین جیسے ملکوں کو جو جوہری ملک ہیں اور ایک دوسرے کے پڑوسی ہیں، یہ سوچ دل سے نکال دینی چاہیے کہ ہمیں آپس میں کوئی جنگ کرنی چاہیے۔ انہوں نے کہا یہ انتہائی احمقانہ سوچ ہے اور جو کوئی بھی یہ سوچ رکھتا ہے وہ احمق ہے خواہ وہ کہیں بھی رہتا ہو۔
انہوں نے کہا کہ یہ بات خوش آئند ہے کہ روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاروف نے پاکستان اور بھارت کے درمیان ثالثی کی پیش کش کی ہے اور پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے جمعے کو پارلیمنٹ سے اپنے خطاب میں اس پیش کش کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان اس پیش کش کا خیر مقدم کرتا ہے اور کشیدگی ختم کرانے کی روس کی کوششوں میں ہر طرح سے تعاون کرے گا۔